مدینه منوره کی ایک سرد رات
یہ ایک ایسی ہی سردرات کی بات ہے جب مدینہ منورہ میں موسم سرما عروج پر تھا ، انسان تو انسان ، جانور اور چرند پرند بھی اپنے اپنے گھروں میں سردی سے بچنے کے لیے ڈنکے ہوئے تھے سخت سردی کے ساتھ ساتھ رات کی تاریکی نے ماحول کومز ید ڈ راؤ نا بنادیا تھا ، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا اور ایسے وقت میں باہر نکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن تعجب کی بات ہے کہ ایسے سخت موسم میں بھی مدینہ منورہ کے دو مقیم افراد علا قائی دورہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ، دونوں کو ایک نظر دیکھنے سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک شاید آقا ہے اور دوسرا اس کا خادم ۔البتہ دونوں کے ظاہری حلیے اور لباس میں کوئی ایسا خاص فرق نہ تھا جو اس امتیاز کو واضح کرتا ۔ شاید اس کی ایک وجہ تو ہیہ تھی کہ آقا نے کوئی خاص لباس زیب تن نہ کیا تھا اور دوسری وجہ آقا کا اپنے خادم سے گفتگو کرنے کا مہذب اور پیارا انداز تھا جو اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ اس آقا نے بھی اپنے خادم پر اپنی برتری جتانے کی کوشش نہیں کی ہوگی ۔ان دونوں کے چلنے کا انداز اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ دونوں فقط چہل قدمی کے لیے اس وقت باہر نہیں نکلے بلکہ ضرور کوئی خاص مقصد پیش نظر ہے ۔ ہاں کسی خوف اور شدید سردی کی پرواہ کیے بغیر اس طرح ان کا باہر نکلنا شاید ان کے روزانہ یا ہر دوسرے روز کا معمول تھا ۔
بہر حال آقا اور خادم دونوں مدینہ منورہ کی گلیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ سے تقریبا تین میل دور مشرق میں’’حرۂ واقم ‘ ‘ تک نکل آۓ ۔ چلتے چلتے دونوں اچا تک رک گئے ۔ ان دونوں کے رکنے کی وجہ بہت دور ایک خیمہ تھا جس میں آگ جل رہی تھی ۔ آقانے اپنے خادم کی طرف دیکھ کر کہا : اے اسلم ! اتنی سخت سردی میں کون ہوسکتا ہے ؟ ‘ ‘ اسلم نے لاعلمی کا اظہار کیا تو آقانے کہا : ” میرا خیال ہے شاید کوئی قافلہ ہے ، رات اور سردی کی وجہ سے یہیں ٹھہر گیا ہوگا ۔ آؤ چل کر دیکھتے ہیں کیا معاملہ ہے ؟ ‘ ‘ دونوں چلتے ہوئے جیسے ہی خیمے کے قریب پہنچے تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ کوئی خیمہ نہیں بلکہ ایک ٹوٹا پھوٹا کچا گھر ہے ، اور اس میں کوئی قافلہ وغیرہ نہیں تھا بلکہ وہاں تو ایک خاتون اپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ مقیم تھی جس نے چولہے پر ایک ہنڈی چڑھا رکھی تھی جیسے کھانا پکا رہی ہو اور بچے اس کے ساتھ بیٹھے مسلسل رور ہے تھے ، غالباً انہیں بہت بھوک لگی تھی ۔ آقا نے سلام کیا تو اس خاتون نے دونوں کی طرف توجہ کیے بغیر سلام کا جواب دیا۔آ قا نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا : کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ ‘ ‘ خاتون نے جواب دیا : اگر کسی خیر کا ارادہ ہے آؤ ورنہ کوئی ضرورت نہیں ۔ ‘ ‘ غالبا وہ خاتون بہت دکھی تھی ، اس لیے بے زری سے جواب دے رہی تھی لیکن آقا کا انداز بتارہا تھا کہ وہ اس دکھی خاتون کے دکھ میں شریک ہونا چاہتا ہے ۔
اس نے خاتون سے استفسار کیا : اے بی بی ! تم کون ہو اور یہ بچے کیوں رور ہے ہیں ؟ ‘ ‘ خاتون نے جواب دیا : میں مدینہ منورہ کی رہائشی ہوں ، ان بچوں کو شدید بھوک لگی ہے وہ اسی وجہ سے رور ہے ہیں ۔ ‘ ‘ آقانے کہا : ’ ’ اس ہنڈی میں کیا ہے ؟ ‘ ‘ خاتون نے کہا : ’ ’ اس میں تو صرف پانی ہے ، میں نے بچوں کا دل بہلانے کے لیے اسے آگ پر چڑھا رکھا ہے تا کہ کھانا پکنے کے انتظار میں بچے سوجا ئیں ۔ پھر اس دکھیاری خاتون نے اپنے دل کا درد بیان کرتے ہوئے کہا : میں ایک غریب عورت ہوں ، میرے پاس اتنے اخراجات نہیں کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلا سکوں ، ان کا دل پہلا رہی ہوں لیکن امیر المؤمنین کو ہماری کوئی خبر نہیں ، ہم ان کے مظلوم ہیں ، ان کی رعایا ہیں ، ان کا حق بنتا ہے کہ وہ ہمارا خیال رکھیں ، خیر کوئی بات نہیں ہمارا وقت تو جیسے تیسے گز رہی جاۓ گا لیکن کل بروز قیامت امیر المؤمنین اور ہمارے درمیان اللہ ہی فیصلہ فرمائے گا ، اور یقینا آخرت کی پکڑ بہت سخت ہے ۔
آقا نے اس دکھیاری خاتون کا درد سناتو وبھی آبدیدہ ہو گیا اور نرم لہجے میں کہنے لگا : اے بی بی اللہ تم پر رحم فرماۓ تمہاری مصیبتین اور پریشانیاں دور فرمائے لیکن امیر المومنین کو کیا معلوم کہ تم یہاں اس حال میں ہو ؟ ‘ ‘ خاتون نے سوالیہ لہجے میں کہا : وہ ہمارا حاکم ہے اور ہم سے غافل ہے ؟ ا سے معلوم ہی نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں ؟ ‘ ‘ بہر حال آقا اس دکھیاری خاتون کی حالت زار سن کر اس کے گھر سے باہر آ گیا اور اپنے خادم اسلم سے کہا : میرے ساتھ جلدی چلو ‘ ‘ پھر دونوں تیزی سے چلتے ہوئے مدینہ منورہ کی اندرونی آبادی کی طرف روانہ ہو گئے ۔آقا بہت گہری سوچ میں گم تھا کیونکہ اس خاتون کی حالت زار اور اس کی بیان کی گئی آب بیتی نے آقا کی ذات پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے ، جو آ قا پہلے اپنے خادم سے گفتگو کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا اب وہی آقا خاموشی کی چادر تانے تیزی کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں ایک غلے کے گودام کے قریب کھڑے تھے ، خادم نے دروازہ کھولا ، آقا نے جلدی سے ایک بوری آٹا، کھجور، کچھ رقم اور کھانا پکانے کے دیگر لوازمات ساتھ لیے اور خادم سے کہا : ’ ’ اسلم ! انہیں میری پیٹھ پر لا دو ‘ ‘ خادم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا : ’ حضور ! آپ مجھے حکم فرمائیں میں اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر خاتون تک پہنچا دوں گا ۔ ‘ ‘ آ قا نے خادم کی طرف دیکھا اور ایک آہ سرد دل پردورد سے کھینچ کر کہا : ’ ’ آہ ۔۔۔ ! آج اس دنیا میں تو تو میرے حصے کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد لے گا ، میری تکلیف کو برداشت کر لےگا لیکن یادکر اس دن کو جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور کسی کی تکلیف دوسرے کو نہیں دی جائے گی ، کیا اس دن بھی تو ہی میرا بوجھ اٹھائے گا ؟ ‘ ‘ خادم اپنے آقا کا فکر آخرت سے بھر پور جواب سن کر خاموش ہو گیا اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سارا سامان آقا کی پیٹھ پر ڈال دیا ۔ دونوں ایک بار پھر مدینہ منورہ سے باہر اس دکھیاری خاتون کے گھر کی طرف رواں دواں تھے ۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں گھر تک پہنچ گئے ، خاتون ان دونوں کو سامان کے ساتھ دیکھ کر حیران روئی ۔آقا وہ سارا سامان اتارا اور آٹے کی بوری کھول کر اس خاتون سے کہا : اس میں سے آٹا نکالو اور اس پر نمک ڈالو تاکہ میں حریرہ ( آٹے سے بنایا جانے والا کھانا ) بناؤں ۔ پھر آ قا بنڈی کے نیچے آگ پھونکنے لگا ، یہاں تک کہ دھواں اس کی داڑھی کے درمیان سے نکلنے لگا ۔ آقا ساتھ ساتھ آگ بھی جاتا رہا اور کھانا بھی پکا تا رہا ، بالآخر کھانا پک کر تیار ہو گیا ۔ آقانے ہنڈی کو چولہے سے نیچے اتارا اور خاتون سے کہا : ” کوئی بڑا اور کھلا برتن لاؤ ۔ “ وہ خاتون ایک بڑا سا پیالہ لے آئی ۔ ‘ ‘ آ قا نے اس میں کھا نا ڈالا اور اپنے ہاتھوں سے اسے ٹھنڈا کرنے لگا جب کھانا ٹھنڈا ہو گیا تو اس نے بچوں کو اپنے قریب کر کے اپنے ہاتھوں سے کھلا نا شروع کر دیا ، یہاں تک کہ سب بچوں نے پیٹ بھر کر کھالیا اور خوش ہو گئے ۔ پھر اس نے بچوں کی دلجوئی کے لیے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ، بچوں کی خوشی میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ کھیلتے کھیلتے سو گئے ۔ مابقیہ کھانا خاتون کے پاس چھوڑ کر اپنے خادم اسلم کے پاس آ کر اس طرح بیٹھ گیا گو یا اسے قلبی سکون مل گیا ہو اور اس کے کندھے سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو ۔ وہ خاتون اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی : تم اسے شفیق اور رحم دل ہو ، اس مصیبت کی گھڑی میں تم نے ہماری مدد کی ، میرے روتے ہوئے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کے موتی بکھیرے ، میں کس منہ سے تمہارا شکر یہ ادا کروں ؟ اللہ ہی تمہیں اس کی بہتر جزا عطا فرمائے گا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم ہی امیر المؤمنین بننے کے حق دار ہو ۔ اسلم دیکھ رہا تھا کہ اب اس خاتون کے لہجے میں واضح تبدیلی آ چکی تھی ، اور وہ دل سے بہت خوش دکھائی دے رہی تھی ۔ اس آقا کی جگہ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو وہ اپنی اس تعریف پر پھولے نہ سماتا اور لوگوں میں جا کر سینہ چوڑا کر کے اپنے اس کارنامے کو بیان کرتا لیکن اس آقا نے تو ان تعریفی کلمات پر بالکل توجہ نہ دی بلکہ کہنے لگا : اے بی بی ! جیسا تم کہہ رہی ہو ایسا بالکل نہیں ، میں اور امیر المؤمنین بنے کا حقدار ! یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، ہاں ایک بات ضرور ہے اگر تم بھی امیر المؤمنین کے دربار میں آؤ گی تو مجھے وہاں ضرور دیکھوگی ۔
پھر آ قا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوۓ اٹھا اور اپنے خادم اسلم کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا : اے اسلم ! بھوک نے ان ننھے بچوں کو جگا رکھا تھا اور بھوک ہی انہیں مسلسل رلا رہی تھی ۔ جب میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو مجھے اپنے بچے یاد آ گئے اور میں نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا کہ جب تک ان بچوں کی بھوک کو شکم سیری ، رونے کو بننے اور ان کے غم کو خوشی ومسرت میں تبدیل نہ کر دوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا اور نہ ہی واپس اپنے گھر جاؤں گا ۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ۔ بہر حال آقا اور خادم دونوں مدینہ منورہ کی مبارک گلیوں سے ہوتے ہوئے واپس اپنے گھر آگئے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ حکایت کو پڑھ کر ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ….. مد بینہ منورہ کی سخت سردی کی رات میں یہ کون تھا ؟ جواپنے خادم کے ساتھ شہر مدینہ کا دورہ کرنے باہر نکلا ….. یہ کون تھا ؟ جس نے اپنے اور خادم کے درمیان ہر امتیاز کوختم کر دیا تھا …. یہ کون تھا ؟ جو اپنے خادم کے ساتھ بھی حسن اخلاق کے ساتھ پیش آتا تھا …. یہ کون تھا ؟ جس کے دل میں پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی دکھیاری امت کی خیر خواہی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا …. یہ کون تھا ؟ جس نے رات گئے ایک غریب و نادار عورت اور اس کے روتے بچوں میں خوشیاں تقسیم کیں …… یہ کون تھا ؟ جس کی باتوں کے ہر ہر لفظ سے خوف خدا ظاہر ہوتا تھا ….. یہ کون تھا ؟ جس نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو کھانا کھلا یا ….. کون تھا ؟ جس نے بچوں کے ساتھ کھیل کر ان کی دلجوئی کی اور انہیں خوش کیا …. کون تھا ؟ جس کے عمل کو دیکھ کر وہ خاتون بھی بے ساختہ پکار اٹھی کہ تم ہی امیر المؤمنین ہونے کے حق دار ہو ۔ جی ہاں میٹھے اسلامی بھائیو ! پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی دکھیاری امت کی خیر خواہی کا عظیم جذ بہ ر کھنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ خلیفہ ثانی ، امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔