فاروق اعظم کے القابات

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ’ القابات ‘‘ جمع ہے ’’ لقب ‘‘ کی ۔ لقب سے مراد وہ نام ہے جوعوام میں کسی خاص وصف کے باعث مشہور ہو جاۓ ، نیز لقب اصل نام کے علاوہ وہ نام ہوتا ہے کہ جس میں کسی خوبی یا کسی خامی کا پہلو نکلے ۔ قرآن پاک میں برے القابات و ناموں سے پکارنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے چنانچہ اللہ ارشاد فرماتا ہے : ولا تنابزوا بالالقاب » ( ۲۲ ، الحجرات : ۱ ۱  ترجمہ کنزالایمان : ’’ اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ‘‘ 

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کے القابات

صدرالافاضل مولا نا مفتی محمدنعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :بعض علماء نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو گتا یا گدھا یا سور کہنا بھی اسی میں داخل ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ القاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو نا گوار ہولیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں ممنوع نہیں جیسے کہ حضرت سیدنا ابوبکر کا لقب ” عتیق ” اور حضرت سیدنا عمر کا ” فاروق ” اور حضرت سید نا عثمان غنی کا ” ذوالنور نین ” اور حضرت سیدنا علی کا ” ابوتراب ” اور حضرت سیدنا خالد کا”سیف اللہ رضی اللہ تعالی عنہم اور جو القاب بمنزلہ علم ہو گئے ( یعنی نام کی جگہ لے لی ) اور صاحب القاب کو نا گوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں جیسے کہ اعمش ، اعرج “



   امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بھی کئی القابات میں بعض القابات تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو خاص اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم کی بارگاہ سے عطا ہوئے اور کئی ایسے القابات ہیں جو آپ کی حیات طیبہ کی مخصوص صفات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ آپ کے 11 القابات مع وجوہات پیش خدمت ہیں :


لقب فاروق اور اس کی وجوھات

  ” فاروق لقب اللہ نے عطافرمایا : حضرت سیدنا نزال بن سبرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے عرض کیا : اے امیر المومنین ! ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کچھ ارشادفرمایئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی اللہ نے ارشادفرمایا : امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنه و شخصیت ہیں جنہیں اللہ نے ‘فاروق’ لقب عطا فرمایا کیونکہ آپ نے حق کو باطل سے جدا کر دکھا یا ۔


‘فاروق’لقب بارگاہ رسالت سے عطا ہوا :

   حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ آپ کو فاروق کیوں کہا جا تا ہے ؟ ‘ ‘ ارشادفرمایا : ‘ ‘ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنه
مجھ سے تین روز قبل اسلام لائے ۔ اللہ نے میرا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا اور میں بے ساختہ پکار اٹھا : الله لا إله إلا هو له الأسماء الحسنى یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے ہیں سب اچھے نام ۔ اس وقت ساری روئے زمین پر حضور نبی کریم ، رؤوف و رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخصیت میرے لیے محبوب نہ تھی ۔ میں نے پوچھا : اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں ؟ ‘ ‘ میری ہمشیرہ نے کہا : دار ارقم بن ابی ارقم میں جو صفا پہاڑی کے نزدیک ہے ۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعال اللہ اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان گھر کے اندر صحن میں اور دو عالم کے مالک و مختار ، مکی مدنی سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم آگے کمرے میں تشریف فرما تھے ۔ میں نے دروازہ پر دستک دی تو میری آمد پر سب صحابہ کرام علیہم الرضوان اکٹھے ہو گئے ۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بولے : ” کیا بات ہے ؟ ‘ ‘ وہ کہنے لگے : ’ ’ عمر آ گیا ہے ۔ یہ سن کر خود خاتم المرسلين ، رحمة للعالمين صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میرا گریبان پکڑا اور زور سے جھنجھوڑ کر فرمایا : ’ ’ عمر ! تم باز نہیں آؤ گے تو میں بے ساختہ پکار اٹھا : أشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسولہ
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ ‘ ‘ دار ارقم سے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس کی آواز کعبۃ اللہ شریف میں سنی گئی ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ! کیا حیات اور موت دونوں صورتوں میں ہم حق پر ہیں ؟ ‘ ‘ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا : کیوں نہیں ، اللہ کی قسم تم لوگ حق پر ہو ، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔ میں نے عرض کی یارسول الله صلى لله تعال علیہ والہ وسلم ! پھر ہم چپ چپ کر کیوں رہ رہے ہیں ؟ اس رب کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہم ضرور باہر نکلیں گے ۔ چنانچہ ہم دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو اس طرح باہر لے آئے کہ ہماری دوصفیں تھیں ، اگلی صف میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور پچھلی صف میں میں تھا اور میری حالت یہ تھی کہ میرے اوپر آٹے جیسا غبار تھا ۔ ہم مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کفار قریش نے ایک نظر مجھے اور دوسری نظر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا تو ان پر ایسا خوف طاری ہوا جو اس سے قبل کبھی نہ ہوا تھا ۔ اس دن خاتم المرسلين ، رحمة للعلمين صلى الله تعالى عليه واله وسلم نے میرا نام ” فاروق ‘ ‘ رکھ دیا ، کیونکہ اللہ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔


فاروق کا لقب کس نے دیا ؟

    حضرت سید نا ابوعمرو و ذکوان رحمة الله تعال علیھما نے ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا : ” من سمى عمر الفاروق ؟ یعنی حضرت سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ ‘ ‘ فرمایا : النبی یعنی غیب کی خبر میں دینے والے ( نبی ) نے۔


حق و باطل میں فرق کرنے کے سبب فاروق:

    حضرت سید نا امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ القوی سے روایت ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہو گیا ۔ یہودی نے کہا : ” فیصلے کے لیے تمہارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس چلتے ہیں ۔ ‘ ‘ منافق بولا : نہیں بلکہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس جانا چاہیے ۔ ‘ ‘ یہودی نے یہ بات نہ مانی اور حضور نبی کریم ، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس چلا آیا اور بارگاہ رسالت میں پہنچ کر سارا ماجرا بیان کر دیا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ جب دونوں باہر آۓ تو منافق کہنے لگا : ’’ عمر بن خطاب کے پاس چلتے ہیں ۔ دونوں سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کر دیا اور یہودی نے یہ بھی وضاحت کر دی کہ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ آپ کے نبی محمد بن عبد الله صلى اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے میرے حق میں کر دیا ہے اور اس فیصلے کے بعد یہ شخص آپ کے پاس آنے پر اصرار کرنے لگا تو ہم یہاں آگئے ۔امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ سارا معاملہ سنا تو ارشادفرمایا : تم دونوں ذرا یہیں ٹھہرو ، میں ابھی آتا ہوں ۔ ‘ ‘ آپ اندر تشریف لے گئے اور تلوار نیام سے باہر نکالتے ہوئے واپس آئے اور فورا اس منافق کا سرتن سے جدا کر دیا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا : ’ ’ هكذا أقضى بين من لم يرض بقضاء الله ورسوله یعنی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فیصلے سے راضی نہیں میں اس کا فیصلہ یوں کروں گا ۔


آسمانوں میں آپ کا نام فاروق ہے :

   حضرت سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلين ، رحمة للعالمين صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا : ‘ ‘ میں مسجد میں بیٹھا جبریل امین سے باتیں کر رہا تھا کہ اچا نک عمر بن خطاب آگئے ۔ جبریل امین نے کہا : ‘ ‘ یارسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم ! کیا یہ آپ کے بھائی عمر تو نہیں ہیں ؟ ‘ ‘ میں نے کہا : جی ہاں ۔ اور اے جبریل ! کیا زمین کی طرح آسمانوں میں بھی ان کا کوئی خاص نام ہے ؟ ‘ ‘ جبریل بولے : انّ إسمه في السّماء أشهر من إسمه في الأرض إسمه في السماء فاروق و في الأرض عمر یعنی يارسول الله صلى الله تعالى عليه و اله و سلم ! آسمانوں میں جو ان کا نام ہے وہ زمین کی نسبت زیادہ مشہور ہے ، زمین میں ان کا نام عمر ہے اور آسمانوں میں ان کا نام فاروق ہے ۔

   جنتی درخت کے پتوں پر آپ کا نام فاروق لکھا ہے :

حضرت سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ دو عالم کے مالک و مختار صلی الله تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا : ‘ ‘ في الجنة شجرة ما عليها ورقة إلا مكتوب عليها لا إله إلا الله محمد رسول الله أبو بكر الصديق عمر الفاروق عثمان ذوالنورین یعنی جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر پتے پر یہی لکھا ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول ہیں ، ابوبکر صدیق ہیں ، عمر فاروق ہیں ، عثمان ذوالنورین ہیں ۔


قیامت میں آپ کو فاروق نام سے پکارا جائے گا :

   حضرت سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے قیامت کے دن اپنا اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام بیان فرمایا ۔ پھر ارشادفرمایا : ” قیامت میں یوں ندا آۓ گی’’عمر فاروق ‘ ‘ کہاں ہیں ؟ ‘ ‘ چنانچہ انہیں حاضر کیا جائے گا تو اللہ ارشادفرماۓ گا : اے ابوحفص ! تمہیں مبارک ہو ، یہ ہے تمہارا اعمال نامہ ، چاہوتو اسے پڑھ لو یا نہ پڑھو کیونکہ میں نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے