شکر سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے
میں نے تمھیں تمھاری ماں کے پیٹ سے نکالا ، تم کچھ نہیں جانتے تھے ، اور تمھارے لیے کان ، آنکھ اور دل بناۓ تاکہ تم شکر ادا کرو ۔ “ ( انحل : 78 ) اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل انسانوں کی پیدائش کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ جب تم پیدا ہوۓ تو بالکل مجبور ولاچار تھے ، چلنا ، پھر نا ، کھاناسب دوسروں کے رحم وکرم پر تھا ، تمھارے اندراگ اور پانی کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی نہیں تھی ، سانپ بچھو وغیرہ جانوروں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتے تھے ، لیکن تمھارے رب نے جو سب کا پالنہار ہے تمھاری پیدائش سے پہلے ہی زندگی کی تمام ضروریات مہیا کر دی ، آب و ہوا ، دانہ پانی ، اور تمھاری حفاظت کے لیے تمھارے ماں باپ سب موجود تھے اور کائنات کی ہر چیز انسانوں کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے ، اللہ پاک دنیا اور سامان دنیا کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ” وہی اللہ ہے جس نے تمھارے لیے پیدا کیا جو کچھ زمین میں ہے ، “ ( بقرۃ : 29 ) اللہ پاک ہمیں حکم دیتا ہے کہ اے بندو ! میرا شکر ادا کرو ۔ اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی بے نیاز ہے ، اسے کسی کی عبادت ، اطاعت اور شکر کی ضرورت نہیں ہے ، وہی موجود حقیقی ہے ، سب کا مالک اور خالق ہے ، لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ : تم میرا ذکر کرو میں تمھیں ( جودو سخا کے ساتھ یاد کروں گا ، اور میرا شکر اداکرو ، ناشکری نہ کرو ‘ ‘ ۔ ( بقرۃ : 152 ) اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ قرآن کریم میں خود اللہ تعالی نے اس کی توجیہ فرمائی ہے : ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کا شکر ادا کرے ، اور جو شکر اداکر تا ہے ، وہ اپنے فائدے کے لیے شکر اداکر تاہے ‘ ‘ ۔ ( لقمان : 12 )ءیاس آیت کی تفسیر میں ہے : مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مشارق و مغارب ارض کا ملک عطافرمایا ، چالیس سال آپ اس کے مالک رہے ، پھر تمام دنیا کی مملکت عطافرمائی۔جن ، انسان ، شیطان ، چرند و پرند ، چوپاۓ اور ہواوغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی ، اور ہر ایک شئی کی زبان آپ کو عطافرمائی ‘ ‘ ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )
جب حضرت سلیمان کے وزیر آصف بن بر خیانے ملکہ بلقیس کی تخت کو آنکھ جھپکنے سے پہلے حاضر کر دیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا : یہ میرے رب کا فضل ہے ، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر ادا کرتا ہوں ، یا ناشکری کرتا ہوں ، اور جو شکر اداکرتا ہے ، وہ اپنے فائدے کے لیے شکر اداکرتا ہے ، اور جو نافرمانی کرتا ہے تو بیشک میرارب بے نیاز اور کریم ہے “ ۔ ( النمل : 40 ) مذکورہ دونوں آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ شکر کا فائدہ خالص بندوں ہی کے لیے ہے ، اس میں اللہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس کی وضاحت ایک اور آیت سے ہوتی ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے : ” ( یاد کرو ) جب تمھارے رب نے اعلان کر دیا کہ اگر تم شکر اداکرو گے تو میں تمھیں ضرور مزید عطاکروں گا ، اور اگر ناشکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بہت سخت ہے “ ( ابراہیم : 7 ) اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک وعدہ فرمایا ہے ، کہ شکر پر مزید عطاکروں گا ، اور اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے ، اور ناشکری کرنے والوں کو سخت عذاب کی تنبیہ کی گئی ہے ۔ صفحہ ہستی پر بہت سی قومیں آباد ہوئیں ، ان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے انبیاورسل کو بھیجا گیا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا ۔ ( النحل 36 ) لیکن ان کی قوم نے ان کی نافرمانی کر کے اللہ کی ناشکری کی ، تو اللہ نے انہیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے : اللہ نے ایک گاؤں کی مثال دی ، جوامن و اطمینان کے ساتھ آبادتھی ، ہر طرف سے روزی کثرت سے آتی تھی ، پھر انھوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، تواللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے بھوک اور خوف کالباس پہنا دیا ‘ ‘ ۔ ( النحل : 112 ) اللہ تعالی بندوں سے بے انتہا محبت فرماتا ہے ، انہیں کے لیے کائنات سجائی ، زمین کے فرش پر آسان کا شامیانہ لگایا ، اللہ تعالی بڑے ہی مشفقانہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے تمھیں عذاب دے کر اللہ تعالی کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ ، اللہ شکر کا بدلا دینے والا ، علم والا ہے ۔ ( النساء : 147 ) اللہ رب العزت رحمان و رحیم ہے ، بڑا مہربان ہے ، لیکن اگر کوئی اللہ کی بادشاہت میں بغاوت کرتا ہے ، غرور و تکبر کی چادر اوڑھتا ہے ، جو کہ اللہ رب ذو الجلال کے لیے خاص ہے ، اللہ کی ناشکری اور نا فرمانی کرتا ہے ، تو بلاشک و شبہ اللہ جبار وقہار بھی ہے ، اپنی مملکت کے باغی کو سزا بھی دیتا ہے ۔ اللہ تعالی نے لوگوں کو مختلف حیثیتیں دی ہیں کچھ امیر ہیں کچھ غریب ہیں ، کوئی بادشاہ ہے ، کوئی رعایا ہے ، لیکن شخص پر اللہ تعالی کی نعمتیں بے شمار ہیں ۔ آگ ، ہوا ، پانی ، دھوپ وغیرہ ہر شخص کو پہنچ رہی ہے ۔ کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے ، اس لیے ہر شخص پر اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے ، اور رسول اکرم ﷺ نے شکر گزار بننے کا بہترین طریقہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا : ( دنیا کے معاملات میں ) اس شخص کی طرف دیکھو جوتم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے ، یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے ۔ علما فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہے ۔ اخروی اور نیک کاموں میں اس شخص کی طرف دیکھنا چاہیے جو بہتر ہو ، تاکہ دل میں اچھے کاموں کی رغبت پیدا ہو ۔ اس کی تائید ایک حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نے سے یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” دو باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں اللہ تعالی اسے صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں یہ دونوں خصلتیں نہ ہوں اسے اللہ تعالی صابر و شاکر نہیں لکھے گا ( وہ دو خصلتیں یہ ہیں : جو شخص دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے اور دنیاوی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور اللہ تعالی کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی ، اللہ تعالی ایسے آدمی کو صابر و شاکر لکھتا ہے ۔ اور جو آدمی دینی امور میں اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دنیاوی امور میں اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس پر افسوس کرے جو اسے نہیں ملا ، اللہ تعالی اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا ۔ ‘ ‘ ۔ ( ترمذی : 2512 ) حضرت شیخ سعدی کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے ، آپ فرماتے ہیں : ایک دفعہ میرے پاؤں میں جو تانہ تھا اور جیب میں کوئی پیسہ بھی نہ تھا کہ اس سے جو تاخر ید سکوں ۔ ننگے پاؤں جارہا تھا اور دل ہی دل میں کہ رہا تھا کہ خدا نے میر انصیب کتنا خراب بنایا ہے ۔اسی حالت میں چلتے چلتے کوفہ کی جامع مسجد میں جا پہنچا ، وہاں ایک آدمی کو دیکھا ، جس کے پاؤ ں ہی نہ تھے ۔ میں فوراً خدا کے حضور سجدے میں گر گیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جو تانہ ہیں ، خداتعالی نے مجھے پاؤں تو دیے ہیں ۔
حضرت صہیب بن سنان رومی نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ، اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ، اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کر تا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوئی ہے اور اس پر صبر کر تا ہے تو یہ صبر کر نابھی اس کے لیے باعث خیر ہے “ ۔ نعمت کم ہو یا زیادہ ہر حال میں شکر ادا کر نا ضروری ہے ، اور جو کم نعمت ملنے پر شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ ملنے پر بھی شکر ادا نہیں کر تا ہے اور جس طرح رب کا شکر ادا کر ناضروری ہے ، اس طرح انسانوں کا بھی شکر یہ ادا کرنا ضروری ہے ، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کر تا وہ اللہ کا بھی شکر ادانہیں کر تا ہے ، اور لوگوں میں ہمارے حسن سلوک اور شکریے کا سب سے زیادہ حق دار ہمارے والدین ہیں ، جنہوں نے ہمارے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : ” اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکیدفرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے کہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا ، میری ہی طرف پلٹنا ہے ‘ ‘ ۔ ( لقمان : 14 )
اللہ کے برگزیدہ بندے شکر کی اہمیت و فضیلت جانتے ہیں ، اس لیے وہ ہمیشہ اللہ کے ذکر و شکر میں رطب اللسان رہتے ہیں ، تفسیر طبری میں ہے ، حضرت سعید ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام جب بھی کوئی نیا کپڑا پہنتے تھے ، یا کھانا کھاتے تھے تو اللہ کا شکر اداکرتے تھے ، اسی وجہ سے قرآن کریم میں انہیں ’ ’ عبد شکور ( بہت شکر کرنے والا بندہ ) کے نام یاد کیا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ مہمان کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے ، ایک دن کوئی مہمان نہیں تھا ، اس لیے آپ نے دو پہر کے کھانے کو موخر کر دیا ، کچھ دیر بعد فرشتوں کی ایک جماعت انسانی شکل میں ظاہر ہوئی ، آپ نے ان کو کھانے کی دعوت دی ، تو انہوں نے ظاہر کیا کہ انہیں بیماری ہے ، تو آپ نے فرمایا : کہ اب تمھارے ساتھ مجھے کھانا واجب ہو گیا ، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے اس بیماری سے مجھے عافیت بخشی : ” وہ ( ابراہیم علیہ السلام ) اپنے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، ( اللہ نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی “ ( نحل : 121 )
سیدنا مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے ۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالی نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف کر دی ہیں ۔ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ، کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ( صحیح بخاری ومسلم )
اے اللہ کے بندو ! ہماری ایک ایک سانس اللہ کی نعمتوں سے سر شار ہے ، وہ مالک ہے ، ہم بندے ہیں ، اس کی نعمتیں ہم پر بے شمار ہے خود فرماتا ہے:
اے اللہ کے بندو ! ہماری ایک ایک سانس اللہ کی نعمتوں سے سر شار ہے ، وہ مالک ہے ، ہم بندے ہیں ، اس کی نعمتیں ہم پر بے شمار ہیں ، خود فرماتا ہے : ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو توگن نہ سکوگے ، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے “ ( النحل : 18 )
ہمارے لیے یہی لائق و مناسب اور واجب ہے کہ اس پرودگار کی نعمتوں کے گن گائیں ، اس کے نام کی مالا جپیں ، اس خوب شکر کریں تاکہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہم پر مزید الطاف واکرام کی بارشیں برساۓ ، وہ کریم ہے اس کی نعمتوں کے خزانے بھرے ہوۓ ہیں : کوئی چیز نہیں ہے مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کا خزانہ ہے ، ہم ایک متعین مقدار سے ہی اتارتے ہیں ۔ ( الحجر) 21
اگر ہم ناشکری کریں گے تو بیشک اللہ اس بات پر قادر ہے کہ اس ہوا کو روک دے جس میں ہم سانس لیتے ہیں : ” اگر وہ چاہے تو ہوا تھما دے ، اور ( یہ کشتیاں سمندر پر ) ٹھہری رہ جائیں بیشک اس میں ہر صبر وشکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں ‘ ‘ ۔ ( الشوری : 33 ) وہ اس بات پر قادر ہے کہ اس پانی کو ختم کردے جسے ہم پیتے ہیں فرمادیجیے : اگر تمھارا پانی زمین میں بہت نیچے اتر جاۓ ( خشک ہو جاۓ ) تو کون ہے جو تمھیں زمین پر بہتاہواپانی لادے “ ۔ ( الملک : 30 )
اخیر میں دو آیتوں کا ترجمہ پھر سے پڑھیے اور اللہ کا شکر گزار بندہ بنے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا : ” یہ میرے رب کا فضل ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے ، کہ میں شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتاہوں ، جو شکر ادا کرتا ہے ، وہ اپنا ہی فائدہ کرتا ہے ، اور جو ناشکری کرتا ہے تو بیشک میرا رب بے نیاز ، بہت تعریفوں والا ہے ‘ ‘ ۔ ( النمل : 40 )
دوسری آیت میں اللہ پاک فرماتا ہے : ” اور یاد کرو جب تمھارے رب نے سنا دیا کہ اگر شکر اداکر و گے تو میں تمہیں اور دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو میر عذاب بڑا سخت ہے “ ۔ ( ابراھیم : 7 )
اس مختصر سی تحریر میں شکر کرنے کے فضائل اور اس پر اللہ کے انعامات قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کیے گئے ۔اب ہم پر ضروری ہے کہ اپنے اندر اللہ کی نعمتوں کا احساس پیدا کریں ۔جب ہم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر یں گے تو اس کا شکر بجالائیں گے ، اور مومن کی شان ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کے ملنے پر اس کا شکر اداکرے ، اس کے چلے جانے پر صبر کرے ۔ یہی مومن کی شان کو زیبا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں خوب خوب شکر کرنے والا بندہ بناۓ ، آمین ۔