رسول اللہ ﷺ کا حلیہ مبارک
ترے خلق کو حق نے عظیم کہاترے خلق کو حق نے جمیل کی
کوئی تجھ ساہوا ہے نہ ہو گا شہاترے خالق حسن و ادا کی قسم
اللہ تعالی نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو معنوی اخلاق اور صفاتی حسن کے ساتھ ظاہری اور جسمانی حسن و جمال اور بے مثال اخلاق و کردار کا لازوال جوہر عطا فرمایا تھا ۔ محب صادق اپنے محبوب کے نشان قدم سے بھی محبت کرتا ہے ، اور اس کی زندگی سے متعلق ہر بات سے واقف ہونے کی کوشش کر تا ہے تاکہ اس کی پسند اور ناپسند سے آگاہ ہو اور وہی کام سرانجام دے جو اس کے محبوب کو محبوب ہے تاکہ محبوب کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکے ۔ کمالات ظاہری و معنوی کے جامع حضور نبی کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے محبت کرنے والے کے دل میں فطری طور پر یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس عظیم ہستی کا سراپاکیسا تھا ، قد و قامت اور شکل صورت کیسی تھی ، ان کے چلنے کا انداز کیا تھا ، وہ گفتگو کیسے کرتے تھے ، اپنے صحابہ کے ساتھ وہ کس طرح پیش آتے تھے ، اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے ، اللہ تعالی کی عبادت اور بندگی کیسے کرتے تھے ۔
رسول کریم ﷺ کے سراپاے حسن و جمال کو بیان کرنے کے لیے اہل قلب و نظر نے فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھاۓ ہیں ، شاعروں نے خامہ فرسائی کی حد کر دی ہے لیکن کوئی بھی اس مہیط حسن الہى کی رعنائیوں کا احاطہ نہ کر سکا ۔ ہماری ظاہری آنکھیں اگر چہ رسول الله ﷺ کی حیات ظاہری میں اس پیکر حسن و جمال کی دلکش اداؤں کو دیکھنے سے محروم ہیں لیکن صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ذریعے رسول الله ﷺ کے حسن سراپا کا جو لفظی مرقع ہم تک پہنچا ہے ، جب ہم محبت رسول ﷺ میں فنا ہوکر ان شہ پاروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل مسرت و شادمانی سے مچلنے لگتا ہے ، آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں ، چہرہ کھل اٹھتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ زاد ہما اللہ شرفا تعظیما کی پرکیف فضا میں موجود ہیں ، اور رسول رحمت ﷺ کے جمال جہاں آرا میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ دیار حبیب کی خوش گوار اور عطر بیز ہوائیں ہماری مشام جاں کو معطر کرتی ہیں ۔ ذیل کی سطور میں ہم رسول اللہ ﷺ کے حلیہ مبارک کا ذکر جمیل اس امید پر کر رہے ہیں کہ ہر امتی کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی ذات سراپا قدس سے عشق و محبت کا تعلق پختہ سے پختہ تر ہو جائے اور اس شوق زیارت کو جلا ، ایان کو حلاوت اور قلب و جاں کو تقویت ملے۔
حضرت سید نا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
عن الحسن بن علي ، قال : سألت خالي هند بن ابي هالة ، وكان وصافا عن حلية النبي ﷺ ، وأنا أشتهى أن يصف لي شيئا منها ، أتعلق به ، قال : ” كان رسول الله فخما مفخما ، يتلألأ وجهة تلالو القمر ليلة البدر ، أطول من المربوع ، وأقصر من المشذب ، الهامة ، رجل الشعر ، إن انفرقت عقيصته فرق ، وإلا فلا تجاوز شعره شحمة أذنيه ، إذا هو وفرة ، أزهر اللون ، واسع الجبين ، أزج الحواجب ، سوابع في غير قرن ، بينهما عرق بدره الغضب ، أقنى العرنين ، له نور يعلوه ، تحسبه من لم يتأمله أشم ، كث اللحية ، سهل الخدين ، ضليع الفم ، أشتب ، مفلح الأسنان ، دقيق المسربة ، كأن عنقه جيد دمية ، في صفاء الفضة ، معتدل الخلق ، بادنا متماسكا ، سواء البطن والصدر ، عريض الصدر ، بعيد ما بين المنكبين ، ضخم الكراديس ، أنور المتجرد ، موصول ما بين اللبة والشرة بشعر يجري كالخط ، عاري الثديين والبطن مما سوى ذلك ، أشعر الذراعين ، والمنكبين ، وأعالي الصدر ، طويل الزندين ، رحب الراحة ، سبط القصب ، شثن الكفين ، والقدمين ، سائل الأطراف ، خمصان الأخمصين ، مسيح القدمين ، ينبو عنهما الماء ، إذا زال زال قلعا ، يخطو تكفيا ، ويمشي هونا ، ذريع المشية ، إذا مشى كأنما ينحط من صبب ، وإذا التفت التفت جميعا ، خافض الطرف ، نظره إلى الأرض أطول من نظره إلى السماء ، جل نظره الملاحظة ، يسوق أصحابه ، يبدر من لقيه بالسّلام
” قال : قلت : صف لي منطقه ، قال : ” كان رسول الله ﷺ متواصل الأحزان ، طويل الفكرة ، ليس له راحة ، لا يتكلم في غير حاجة ، طويل السكوت ، يفتح كلامه ويختمه بأشداقه ، يتكلم بجوامع الكلم ، فضل لا فضول ، ولاتقصير ، دمت ليس بالجافي ، ولا المهين ، يعظم النعمة ، وإن دقت ، لا يذم منها شيئا ، لا يذم ذواقا ولا يمدحه
وفي رواية غيره : ” لم يكن ذواقا ، ولا مدحة ، ولا تغضبه الدنيا ، ولاما كان لها ، وإذا تعوطي الحق ، لم يعرفہ أحد ، ولم يقم لغضبه شيء ، حتى ينتصر له ، ولا يغضب لنفسه ، ولا ينتصر لها ، إذا أشار أشار بكفه كلها ، وإذا تعجب قلبها ، وإذا تحدث اتصل بها يضرب براحته الیمنی باطن إبهامه اليسري ، وإذا غضب أعرض وأشاح ، وإذا فرح غض طرفه ، جل ضحكه التبسم ، ويفتر عن مثل حب الغمام ” . ( دلائل النبوة للبيهقى ، ج : ۱ ، ص : 286 ، 287 ،288 دار الکتن العلمیہ )
ترجمہ : حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے دریافت کیا ، اور وہ رسول اللہ ﷺ کے حلیہ مبارک کو بڑی وضاحت سے بیان کرتے تھے ، اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے ایسے اوصاف بتا دیں جن کو میں اپنے دل میں بھالوں ، تو انھوں نے بیان کیا کہ : ” رسول اللہ ﷺ نہایت عظیم اور باوقار شخصیت کے مالک تھے ، چودہویں رات کے چاند کی طرح آپ کا چہرہ مبارک چمکتا تھا ، قد مبارک عام در میانے قد سے کچھ لمبا اور بہت لمبے قد سے تھوڑا کم تھا ، سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا ، بال مبارک کچھ بل کھاۓ ہوۓ تھے ، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے ، رسول اللہ ﷺ کے بال جب زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے زیادہ لمبے نہ ہوتے ، رسول اکرم ﷺ چمک دار روشن رنگ والے تھے ، پیشانی وسیع اور کشادہ تھی ، لمبی ، بار یک خمدار پلکوں والے تھے جو پوری اور کامل تھیں ، ان کے کنارے آپس میں ملے ہوۓ نہیں تھے ، ان کے در میان ایک رگ تھی جو غصے کے وقت ابھر آتی تھی ، ناک کا بانسہ باریک اور لمبا اس کے اوپر اونچا نور دکھائی دیا ، جس نے غور سے نہ دیکھا ہو تاوہ خیال کر تا کہ رسول کریم ﷺ کی ناک مبارک در میان سے اونچی ہے ، گھنی داڑھی والے اور کشادہ و ہموار رخساروں والے تھے ، دانت مبارک کھلے اور کشادہ تھے ، سینے کے بال ناف تک باریک لکیر کی طرح تھے ، گردن مبارک اتنی خوب صورت اور باریک تھی جیسے گوہر آب دار کو تراشا گیا ہواور وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمک دار تھی ، درمیانی اور معتدل خلقت والے تھے ، مضبوط اور متوازن جسم والے تھے ، سینہ اور پیٹ برابر اور ہموار تھا ، رسول کریم ﷺ کا سینہ مبار ک کشادہ تھا ، دونوں کندھوں کے درمیان کچھ دوری اور فرق تھا ، ہڈیوں کے جوڑموٹے اور گوشت سے پر تھے ، جسم کا وہ حصہ جو کپڑے سے یا بالوں سے کھلا ہوتا وہ روشن اور چمک دار تھا سینے کے اوپر ناف تک ایک لکیر کی طرح بال ملے ہوۓ تھے ، چھاتی اور پیٹ بالوں سے خالی تھے ، دونوں بازوؤں کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے ، کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیاں لمبی تھیں اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، ہاتھ اور پاوں کی ہڈیاں موٹی اور مضبوط تھیں ، انگلیاں بھی اور پاؤں کے تلوے قدرے گہرے تھے ، قدم ہموار اور اتنے نرم و نازک کہ ان پر پانی نہ ٹھہر تا تھا ، چلتے توقوت کے ساتھ آگے کی جانب جھک کر چلتے ، بڑے سکون اور وقار کے ساتھ تیز تیز چلتے ، چلتے ہوۓ معلوم ہوتا کہ آقاے کریم ﷺ بلندی سے نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ، اور جس کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو یکبارگی متوجہ ہوتے ، نظر جھکا کر چلتے ، نگاہ آسمان کے بجاے زمین کی طرف زیادہ ہوتی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت عموما گوشہ چشم سے دیکھنے کی تھی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنے آگے چلاتے ، اور جو شخص بھی ملتا اسے سلام کرنے میں پہل کرتے ۔
سیدناحسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی بول چال اور گفتگو کے متعلق کچھ ذکر کریں تو انہوں نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل غمگین رہتے اور ہمیشہ غور و فکر میں ڈوبے رہتے کسی وقت بھی رسول اللہ ﷺکو آرام میسر نہ تھا ، دیر تک خاموش رہتے اور بلاضرورت کوئی کلام نہ کرتے ، کلام کی ابتدا اور اختتام اللہ تعالی کے نام سے فرماتے ، کلام جامع کلمات پرمشتمل ہوتا ، اور کلام الگ الگ الفاظ و کلمات والا ہو تا ، بات ایسی مکمل ہوتی کہ اس میں تشنگی یازیادتی نہ ہوتی ، سخت دل اور ظالم بھی نہیں تھے اور نہ ہی کو تاہ اندیش یاکسی کو حقیر سمجھنے والے ، کسی کا احسان اگر چہ تھوڑا ہو ، اس کا بڑا خیال کرتے اور اس کی نیکی میں سے کسی چیز کی بھی مذمت نہیں کرتے تھے ۔ کھانے پینے کی کسی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے اور نہ ہی اس کی بے جا تعریف کرتے ۔ دنیا اور اس کے تمام امور آقاے کریم ﷺکو غضبناک نہ کر سکے ، ہاں اگر حق سے تجاوز کی جاتی تو کوئی چیز بھی رسول اللہ ﷺ کے غصے کو اس وقت تک نہ روک سکتی جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتے اپنی ذات کے لیے ناراض نہ ہوتے اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے انتقام لیتے تھے ، اشارہ فرماتے تو اپنے پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے ، جب کسی بات پر تعجب کا اظہار فرماتے تو ہتھیلی کوالٹاکر دیتے ، جب بات فرماتے تو آپ کی بات ہتھیلی کو تحریک دینے کے ساتھ ملی ہوتی اور اپنی دائیں ہتھیلی اپنے بائیں انگوٹھے کی اندر والی جانب بند کرتے ، جب غصے میں ہوتے تومنہ پھیر لیتے اور احتراز فرماتے اور جب خوش ہوتے تو اپنی نظر جھکا دیتے رسول اللہ ﷺ کا زیادہ سے زیادہ ہنسنا صرف مسکراہٹ تک محدود تھا ۔ مسکراتے تواولوں کی طرح سفید دانت ظاہر ہوتے ۔