خلافت فاروقی پر اجماع صحابہ  

شارح صحیح مسلم حضرت علامہ امام شرف الدین نووی علیہ رحمة اللہ القوی نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ کو کچھ یوں ذکر کیا ہے کہ حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جس عہد نامے کا نفاذ فر مایا تھا اس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان متفق تھے ۔ 

   خلافت فاروقی پر اجتماع نقل کرتے ہوئے علامہ ابونعیم اصفہانی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : جب امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کامل فراست کے ذریعے اس بات کو جان لیا کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ دیگر لوگوں سے افضل ہیں ، بہتر ین خیر خواہی کر نے والے ، خلافت کو سنبھالنے کی طاقت رکھنے والے ہیں نیز انہوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں مشکل اوقات میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مکمل تائید و نصرت فرمائی ہے تو سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو منصب خلافت کے لیے منتخب فرمالیا ۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس بات کو جانتے تھے کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کی رائے سے متفق ہیں اور اس پر انہیں کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے اس لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی انتخاب خلیفہ کا اختیار دیا اور الحمد للہ تمام مسلمان آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلے سے مطمئن رہے اور یہ معاملہ آپ ہی کے سپرد کر دیا ، جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تمام صحابہ کرام عليهم الرضوان سید نا فاروق اعظم رضی الله عنہ کے خلیفہ بنائے جانے پر متفق تھے ، اگر انہیں آپ رضی اللہ تعال عنہ کی بات سے معمولی سا بھی اختلاف یا شک وشبہ ہوتا تو وہ انکار کر دیتے اور آپ کی اتباع و پیروی نہ کرتے ۔ در حقیقت سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت وخلافت بالکل اسی طرح ثابت اور صحیح ہے جس طرح سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت ثابت اور صحیح تھی ، گویا سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات گرامی ان کے لیے افضل اور کامل واکمل شخصیت کو خلیفہ منتخب کرنے کے لیے بحیثیت دلیل اور رہنما تھی اسی وجہ سے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی کی ۔ 

   خلافت فاروقی پر اجماع صحابہ نقل کرتے ہوئے سید نا ابوعثمان صابونی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” پھر امیر المؤمنین سید نا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ نامزد کر دینے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اس پر اجماع منعقد ہو جانے سے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ کی خلافت عمل میں آئی اور اس طرح اللہ تعالی نے اسلام کی سر بلندی اور عظمت وشان سے متعلق اپنا وعدہ مکمل فرمایا “

   حضرت سید نا عبد الله بن عباس رضی الله تعال عنہ فرماتے ہیں: کہ میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اس وقت گیا جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو نیزہ مار کر زخمی کر دیا گیا تھا میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! آپ کے لیے جنت کی خوشخبری ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت اسلام لائے جب لوگوں نے کفر کیا ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول الله صلی الله تعالى عليه  وسلم کے ساتھ مل کر اس وقت جہاد کیا جب کفار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عزت کے در پے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دنیا سے ظاہری پردہ اس حال میں فرمایا کہ وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے راضی تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مدت خلافت کے بارے میں بھی دو آدمیوں نے اختلاف نہیں کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے شہادت کی موت ہے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ” دوبارہ کہو ۔ “سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بات کو دوبارہ دہرایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ! اگر تمام زمین کا سونا اورچاندی مل جائیں تا کہ میں آخرت کی ہولنا کیوں سے نجات پا جاؤں تو میں سب کچھ فد یہ دے دوں ۔

ایک اہم وضاحت :

    مذکورہ بالا تمام اقتباسات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور امت مسلمہ اجماع واتفاق سے عمل میں آئی ۔ ان تمام مبارک ہستیوں نے امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کیا ، بحمد الله تعالی آج بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت کرنے والے ، ان کی سیرت طیبہ پرعمل کرنے والے تمام مسلمان ان کی خلافت کو اجتماعی و اتفاقی مانتے ہیں ۔ واضح رہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سید عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا تو بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت کی سختی کو سید نا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے پیش کیا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی قوت وایمان داری و دیانت داری پر متفق تھے البتہ انہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سختی سے ڈرلگتا تھالیکن بحمد اللہ تعالی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد سے لے کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت تک کسی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بات منقول نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بلا وجہ کسی پرسختی فرمائی ہو جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ بنتے وقت صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ذہنوں میں آپ کی طبیعت سے متعلق جو خدشہ تھا وہ بھی بعد میں بالکل دور ہو گیا ۔

 فارق حق و باطل امام الهدی … تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام

 وہ عمر جس کے اعداء پہ شیدا سقر ….. اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے