فاروق اعظم کی با کمال فراست
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتھم العالیہ نے اپنی مایہ ناز مشہور زمانہ تصنیف ’ ’ فیضان سنت ‘ ‘ جلد دوم کے باب’’نیکی کی دعوت ‘ ‘ حصہ اول صفحہ ۳۷۰ پرفراست کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی ہے : اللہ اپنے اولیاء کے دلوں میں وہ چیز ڈالتا ہے جس سے انہیں بعض لوگوں کے حالات کا علم ہو جا تا ہے ۔ واقعی مؤمن کے لیے یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ نور ہے ۔ حضرت سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفر مایا : ’’ مؤمن کی فراست سے ڈروکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ ‘‘
امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اس نور سے بدرجہ اتم معمور تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ کے بے شمار ایسے پہلو ہیں جو آپ کی فراست سے معمور ہیں خصوصاً آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقات آپ کی اعلی فراست کی روشن دلیل ہیں ۔ بہر حال آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی نوری فراست سے مختلف لوگوں کے مختلف اقوال وافعال کو جان لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ فاروق اعظم سچ اور جھوٹ کی پہچان کر لیتے : …. حضرت سید نا طارق بن شہاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کوئی بات بیان کرتا اور اس میں جھوٹ ملا تا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کو روک دیتے ، وہ پھر بیان کرتا تو پھر روک دیتے ۔ جب وہ بیان کر لیتا تو کہتا کہ میں نے جو کچھ بیان کیا وہ حق ہے مگر جتنے حصے کے بارے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس کو روک دوں وہ حق نہیں تھا ۔ ‘‘
حضرت سید نا حسن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ : إن كان أحد يعرف الكذب إذا حدث به إنه كذب فهو عمر بن الخطاب یعنی اگر کسی شخص کو گفتگو میں جھوٹ کی پہچان ہو جایا کرتی تھی تو وہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات مبارک تھی ۔ ‘‘
فاروق اعظم اور اجنبی شخص کی پہچان :
ایک بارامیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے ساتھ ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اصحاب بھی تھے کہ ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا ۔ لوگوں نے عرض کیا : ’’ حضور ! کیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص کو جانتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : ایک شخص کو اللہ نے رحمت عالم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کے متعلق غیب سے اطلاع دی تھی جس کا نام ( حضرت سید نا ) سواد بن قارب ( رضی اللہ تعالی عنہ ) ہے ، میں نے اسے دیکھا تو نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہے تو پھر وہ یہی شخص ہے اور اسے اپنی قوم میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے بلا لیا اور اس سے گفتگو فرمائی تو ویسا ہی ہوا جیسا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا ۔
شراب کی بوتل سرکہ بن گئی :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ایک بار مدینہ منورہ کی ایک گلی سے گزررہے تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ سامنے سے ایک نوجوان آرہا ہے اور اس نے کپڑوں کے نیچے ایک بوتل بھی چھپارکھی تھی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی فراست سے پہچان لیا کہ یہ شراب ہی کی بوتل ہوگی ، چنانچہ جیسے ہی وہ قریب پہنچا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا : اے نو جوان ! یہ کپٹروں کے نیچے کیا اٹھا رکھا ہے ؟ ‘ ‘ یقینا اس بوتل میں شراب تھی نوجوان نے اسے شراب کہنے میں شرمندگی محسوس کی ۔اس نے فورا دل ہی دل میں دعا کی : یا اللہ ! مجھے حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے شرمندہ اور رسوا مت فرما ، ان کے ہاں میری پردہ پوشی فرما ، میں تیری بارگاہ میں سچی توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیوں گا ۔ اس کے بعد نوجوان نے عرض کیا : ’’ امیر المؤمنین ! یہ تو سر کے کی بوتل ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : مجھے دکھاؤ ‘ ‘ جب اس نے وہ بوتل آپ کے سامنے کی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے دیکھا تو وہ واقعی سر کے کی بوتل تھی ۔
بیٹے کے حقیقی رشتے کو پہچان لیا :
حضرت سید نا زید بن اسلم رحمة اللہ تعالی علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا ۔ آپ نے اس سے فرمایا : ويحك حدثني مارايت غراب بغراب أشبه بهذا منک یعنی بہت خوب ! کیا معاملہ ہے کہ آج تک میں نے کؤوں میں بھی اتنی مشابہت نہیں دیکھی جتنی تم باپ بیٹے میں ہے ؟ ‘‘ اس شخص نے ( ایک حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے عرض کی : ” اے امیر المؤمنین ! اللہ کی قسم ! اس بچے کو اس کی ماں نے مرنے کے بعد جنا ہے ۔ آپ نے فرمایا : مجھے اس کی تفصیل بتاؤ ۔ ‘‘ اس نے تفصیل بتاتے ہوئے عرض کی کہ ایک دفعہ میں جنگ کے لیے اپنے گھر سے نکلا تو اس وقت اس کی ماں اس سے حاملہ تھی ، اس نے مجھے کہا : میں حاملہ ہوں اور تم مجھے اس حال میں چھوڑ کر جنگ پر جار ہے ہو ؟ ‘ ‘ میں نے اس سے کہا : ’’ تمہارے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ میں اللہ کو بطور امانت دے کر جار ہا ہوں ۔ ‘‘ پھر میں چلا گیا ۔ جب میں جنگ سے لوٹ کر واپس آیا تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے ، میں نے اپنی زوجہ کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے ، میں اس کی قبر پر گیا اور فرط غم سے روتا رہا ۔ پھر رات کے وقت میں اپنے چچا کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میں نے جنت البقیع میں قبروں کے درمیان آگ دیکھی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے ؟ تو وہ لوگ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ نہ بتایا ۔ میں ان کے پاس گیا اور دوبارہ پوچھا تو انہوں نے میری زوجہ کی قبر کے بارے میں بتایا کہ ہم روزانہ اس کی قبر پر آگ دیکھتے ہیں ۔ یہ سن کر میں نے انا لله وإنا إليه راجعون ( بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے ) پڑھا ۔ کیونکہ خدا کی قسم ! وہ یعنی میری زوجہ تو کثرت سے روزے رکھنے والی ، نوافل ادا کر نے والی اور نہایت ہی پاک دامن مسلمان تھی ۔ میں نے ( قبرکی کھدائی کے لیے ایک پھاؤڑا لیا اور اپنے چچا کے بیٹوں کو لے کر قبر پر آ یا ۔ دیکھا تو قبر پہلے ہی کھلی ہوئی تھی ، میری زوجہ اس میں بیٹھی ہوئی تھی اور یہ بچہ اس کے گرد کھیل رہا تھا ۔ اس وقت آسمان سے ندا کر نے والے ایک منادی نے یوں ندا کی : ” ایها المستودع ربه وديعته خذ وديعتك أما لو استودعت أمه لوجدتها یعنی اے اپنے رب کے پاس امانت رکھوانے والے ! اپنی امانت ( بچہ لے لے اگر تو اس کی ماں کو بھی بطور امانت اپنے رب کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی ضرور ( زندہ ) پاتا ۔ میں نے اس بچے کو اٹھا لیا اور قبر خود ہی بند ہوگئی ۔ اے امیر المومنین خدا کی قسم یہ وہی بچہ ہے۔
منقول: فیضان فاروق اعظم رضی اللہ عنہ