زکوۃ دینے کی فضیلت و ثواب نہ دینے پر وعید وعذاب
قرآن کا فرمان عالی شان : وأقيموالصلوة واتوالزكوة واركعوا مع الراكعين ۔ اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔
پیارے دینی بھائیو! زکوۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ۔ زکوۃ کے معنی نشونما اور پاک کرنے کے ہیں چونکہ زکوۃ کی ادائیگی سے مال میں خیر و برکت کی زیادتی اور پاکیزگی ہو جاتی ہے اس لئے ایسا مال جو ظاہر اور پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے اسے زکوۃ کہا جاتا ہے ۔ شرعی اعتبار سے زکوۃ مال کا وہ حصہ ہے جو اللہ تعالی نے غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کے لئے مقرر کر دیا ہے جو سال گزرنے کے بعد مقررہ نصاب کے مطابق محتاجوں کو دیا جاتا ہے ۔ زکوۃ بھی نمازوں کی طرح فرض ہے کیونکہ اللہ تعالی نے زکوۃ کونماز کے بعد بہت بڑی عبادت اور دینی فریضہ قرار دیا ہے ۔ قرآن میں جگہ جگہ نماز کے ساتھ ہی زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور پیارے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی زکوۃ کو دین اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے ۔
زکوۃ کی حقیقت: زکوۃ کی حقیقت شکران نعمت ہے جو اس جنس کی نعمت کے ساتھ ادا کی جاۓ چونکہ صحت و تندرستی بھی اللہ تبارک وتعالی کی بہت بڑی نعمت ہے لہذا جسم کے ہر عضو کی زکوۃ ضروری ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے تمام اعضاءکو عبادت میں مشغول رکھا جائے ۔کسی کھیل کود میں نہ لگایا جاۓ تا کہ اس طرح سے صحت وجسم کی زکوۃ کا بھی حق ادا ہو جاۓ ۔
علماء ظاہربیں نے بغرض تجربہ حضرت شبلی علیہ الرحمہ سے دریافت کیا کہ کتنی مقدار پر زکوۃ واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا جب بخیل کے پاس دوسو درہم مال موجود ہوتو تمہارے طریقہ میں پانچ درہم اور ہر بیس دینار پر نصف دینار زکوۃ واجب ہے لیکن ہمارے طریق میں کسی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھنا واجب ہے تا کہ زکوۃ کی مشغولیت سے بے پرواہ ہو جاۓ اس عالم نے پوچھا اس مسئلہ میں آپ کا امام اور رہنما کون ہے آپ نے فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں کہ انہوں نے جو موجود تھا سب دے دیا حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ما خلفت لعیالک ‘ ‘ تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا کچھوڑا ؟ عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے ایک قصیدہ میں فرمایا مجھ پر بھی زکوۃ واجب نہ ہوئی کیا سخی پر بھی زکوۃ واجب ہوتی ہے کیونکہ سخی کا مال خرچ ہوتا رہتا ہے وہ مال راہ خدا میں خرچ کرنے سے کنجوسی نہیں کرتے ان کے پاس مال جمع ہی نہیں ہوتا کہ ان کو زکوۃ دینا پڑے [ كشف المحجوب ]
سخت عذاب
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ صاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے مال و دولت کا حق ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے پہلو اور بیٹے جنم کے سخت گرم پتھروں سے داغا جائےگا اور اس کا جسم وسیع کر دیا جائےگا اور جب بھی اس کی حرارت میں کمی آئے گی اس کو بڑھا دیا جائے گا اور دن اس کے لئے طویل کر دیا جاۓ گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی ۔ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال کا فیصلہ ہوگا پھر وہ جنت کی طرف اپنا راستہ اختیار کریں گے۔
پیارے دینی بھائیو ! اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے اسے دردناک عذاب کی خوش خبری دے دو ۔ جس دن اس کے مال کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے پہلوؤں ، پیشانیوں اور پٹھوں کو داغا جاۓ گا کہ یہ ہے جو کچھ تم نے جمع کیا تھا اب اپنے جمع کردہ مال کا مزہ چکھو ۔
فقراء امراء کے لئے باعث ہلاکت و بربادی محبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ قیامت کے دن فقراء ، امراء کے لئے ہلاکت کا سبب بنیں گے جب وہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں عرض کر یں گے اے اللہ ! انہوں نے ہمارے حقوق ہم کو نہ دے کر ہم پر ظلم کیا تھا ۔ رب تبارک و تعالی ارشاد فرماۓ گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ! آج میں تمہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دوں گا اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردوں گا ۔ پھر سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ۔ والذين في أموالهم حق معلوم للسائل والمحروم ۔ اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے اس کے لئے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم ہے ۔
حضور سید عالم صلی للہ تعالی علیہ سلم کا فرمان ہے معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو جہنم کا تھوہر ، ایلیا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا جبرئیل ! یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم ! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ [ زکوۃ نہیں دیتے تھے ۔ انہیں اللہ تعالی نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔
ایک عجیب وغریب واقعہ
تابعین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی ایک جماعت حضرت ابی سنان رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت کے لئے آئی جب ان لوگوں کو وہاں بیٹھے کچھ دیر ہوگئی تو جناب ابي سنان رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا کہ آج ہمارا ایک ہمسایہ فوت ہو گیا ہے چلو تعزیت کے لئے اس کے بھائی کے پاس چلیں ۔ محمد بن یوسف الفریابی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ روانہ ہو گئے اور اس کے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بہت آہ و بکا کر رہا ہے ۔ ہم نے اسے کافی تسلی دی اور صبر کی تلقین کی مگر اس کی گریہ وزاری برابر جاری رہی ۔ ہم نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہرشخص کو آخر مرنا ہے ؟ وہ کہنے لگا مگر میں اپنے بھائی کے عذاب پر روتا ہوں ۔ ہم نے پوچھا کیا اللہ تبارک وتعالی نے تمہیں غیب سے تمہارے بھائی کے عذاب کی خبر دی ہے ؟ کہنے لگا نہیں بلکہ ہوا یوں کہ جب سب لوگ میرے بھائی کو دفن کر کے چل دیئے تو میں وہیں بیٹھا رہا ۔ میں نے اس کی قبر سے آواز سنی وہ کہہ رہا تھا ۔ آہ ! وہ مجھے تنہا چھوڑ گئے اور میں عذاب میں مبتلا ہوں ۔ میری نمازیں اور روزے کہاں گئے ۔ مجھ سے برداشت نہ ہوسکا ۔ میں نے اس کی قبر کھودنا شروع کردی تا کہ دیکھوں میرا بھائی کس حال میں ہے ۔ جونہی قبر کھلی میں نے دیکھا اس کی قبر میں آگ دہک رہی ہے اور اس کی گردن میں آگ کا طوق پڑا ہوا ہے ، مگر میں محبت میں دیوانہ وار آگے بڑھا اور اس طوق کو اتارنا چاہا جس کو ہاتھ لگاتے ہی میرا یہ ہاتھ انگلیوں سمیت جل گیا ۔ ہم نے دیکھا واقعی اس کا ہاتھ بالکل سیاہ ہو چکا تھا ۔ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوۓ کہا میں نے اس کی قبر پر مٹی ڈالی اور واپس لوٹ آیا ۔ اب اگر میں نہ روؤں تو کون روۓ گا ! ہم نے پوچھا تیرے بھائی کا کوئی ایسا بھی عمل تھا جس کی وجہ سے یہ سزا ملی ؟ اس نے کہا وہ اپنے مال کی زکوۃ نہیں دیتا تھا ۔ ہم بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ تو فرمان الہی کی تصدیق ہے ۔ ولا تحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله هو خيراً لهم بل هو شر لهم ، سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة – اور جو بجل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے ۔ عنقریب وہ جس نے بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہے۔ اور تیرے بھائی کو قیامت سے پہلے ہی عذاب دے دیا گیا ۔
جناب محمد بن یوسف الفریابی کہتے ہیں کہ ہم وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں آۓ اور انہیں سارا ماجرا سنا کر دریافت کیا کہ یہود ونصاری مرتے ہیں مگر ان کے ساتھ بھی ایسا اتفاق نہیں دیکھا گیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دائمی عذاب میں ہیں مگر اللہ تعالی ہمیں عبرت حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کی یہ حالتیں دکھاتا ہے ۔ فرمان الہی ہے ۔ فـمـن ابـصـر فـيـنـفـيـه ومـن عـمى فعليها وما أنا عليكم بحفیظ ۔ تو جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہوا اپنے برے کو اور میں تم پر نگہبان نہیں ۔