فاروق اعظم کامساجد کوروشن کرنا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! سالہا سال سے مسلمانوں میں اس بات کا رواج ہے کہ جب کوئی اسلامی تہوار آ تا ہے چاہے وہ ربیع الاول کا مہینہ ہو یا رمضان المبارک کا مہینہ تمام مسلمان اپنے گھروں کو سجانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے گھر یعنی مساجد کو بھی سجاتے ہیں ، انہیں مختلف طریقوں سے روشن کر کے انہیں آباد کرتے ہیں ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے دور میں مساجد کو آباد کرنے کے لیے انہیں روشن کرنے کا خصوصی اہتمام فرمایا اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے بہت پسند فرمایا ۔ مولا علی شیر خدا کرم اللہ تعالی وجھہ الکرایم نے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اس فعل پر خصوصی دعا بھی فرمائی ۔
اللہ آپ کی قبر روشن ومنور فرماۓ :
حضرت سید نا ابو اسحاق ہمدانی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں کہ : امیر المؤمنین حضرت سید ناعلی المرتضی شیر خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم رمضان المبارک کی پہلی رات باہر نکلے تو دیکھا کہ مساجد پر قندیلیں چمک رہی ہیں اور لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کر رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : نور الله لك يا ابن الخطاب في قبرک کما نورت مساجد الله بالقز آن یعنی اے امیر المؤمنین سید نا عمر فاروق اعظم رضي الله تعالى عنه ! الله تعالی آپ کی قبر کو ویسا ہی منور کر دے جیسا آپ نے مساجد کوقرآن سے منور کیا ۔
اللہ آپ پرنور کی بارش فرماۓ :
حضرت سید نا مجاہد رحمہ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ ایک بارامیر المؤمنین حضرت سید نا مولا علی شیر خدا کرم الله تعالى وجهه الكريم رمضان المبارک کی رات کو باہر نکلے تو آپ نے مساجد سے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو آپ نے امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں یوں دعا کی : نور الله على عمر قبره كما نور مساجدنا یعنی الله ولا امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار پرانوار میں ان پر نور کی بارش فرماۓ جس طرح انہوں نے ہمارے مساجد کو منور کیا ۔
مساجد کو روشن کرنے کے متعلق ایک جامع فتوی :
اعلی حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے فتاوی رضویہ میں ایک سوال پوچھا گیا کہ لوگوں کا ستائیسو یں شب رمضان کے موقع پر مساجد کو آراستہ کرنا ، روشنیوں کا خصوصی اہتمام کرنا ، میلاد شریف کی تقریبات کے لئے مکانات کو سجانا ، فانوس اور پھول وغیرہ لگانا ، بزرگان دین کے سالانہ عرسوں میں خانقاہوں پر اور آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مزار پر انوار پر اس قسم کا بندوبست کر نا سوائے مال وقف کے درست ہے یا حرام ؟ ‘ ‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا : مذکورہ زیب وزینت شرعاً جائز ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : « قل من حرم زينة الله التي أخرج لعباده » ( ۸۷ ، الاعراف : ۳۲ ) فرمادیجئے کہ اس زینت وزیبائش کو کس نے حرام ٹھہرادیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے ظاہر فرمائی ہے ۔ اسی طرح ضرورت اور مصلحت کے مطابق روشنی کا انتظام کرنا بھی جائز ہے ( مختلف حالات کے لحاظ سے ضرورت بدلتی رہتی ہے) مثلاً مکان کی تنگی اور کشادگی ، لوگوں کی قلت و کثرت ، منازل کی وحدت وتعدد وغیرہ ان صورتوں میں ضرورت اور حاجت میں تبدیل آجاتی ہے ۔ تنگ منزل اور تھوڑے مجمع میں دو تین چراغ بلکہ ایک بھی کافی ہوتا ہے ۔ کشادہ اور بڑے گھر زیادہ لوگوں اور متعدد منزلوں کے لئے دس بیس بلکہ ان سے بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ امیر المومنین حضرت سید ناعلی المرتضی شیر خدا کرم الله تعالى وجہہ الکریم رمضان شریف میں رات کے وقت مسجد نبوی میں تشریف لاۓ تو مسجد کو چراغوں سے منور اور جگمگاتے ہوۓ دیکھا کہ ہر سمت روشنی پھیل رہی تھی آپ نے امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو بذریعہ دعا یادفر ما یا اور ارشاد فر مایا کہ اے فرزند خطاب ! تم نے ہماری مساجد کو منور وروشن کیا اللہ تعالی تمہاری قبر کو منور فرماۓ ۔ البتہ روشنی کا بے فائدہ اور فضول استعمال جیسا کہ بعض لوگ ختم قرآن والی رات یا بزرگوں کے عرسوں کے مواقع پر کرتے ہیں سیکڑوں چراغ عجیب وغریب وضع وترتیب کے ساتھ اوپر نیچے اور باہم برابرطریقوں سے رکھتے ہیں محل نظر ہے اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے چنانچہ فقہائے کرام نے کتب فقہ مثلا غمز العیون وغیرہ میں اسراف ( فضول خرچی ) کی بنا پر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں اسراف صادق آۓ گا وہاں پر ہیز ضروری ہے ۔ اللہ تعالی پاک ، برتر اور خوب جاننے والا ہے۔