فاروق اعظم کا وظیفہ
بیت المال کے معاملے میں عام آدمی کی حیثیت :
بیت المال کے معاملے میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی حیثیت ایک عام مسلمان جیسی تھی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپناوظیفہ بھی عام مہاجرین صحابہ کے برابر مقرر کر رکھا تھا ۔
فاروق اعظم مسلمانوں کے اموال کے امین :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے : ” مسلمانوں کا مال میرے پاس ایسے ہے جیسے کسی وارث کے پاس یتیم کا مال ہوتا ہے ، میں بلاضرورت اس سے کچھ نہیں لیتا ، اگر ضرورت ہو بھی تو جائز طریقے سے کچھ حاصل کر لیتا ہوں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا : یا امیر المونین ! وہ جائز طریقہ کیا ہے ؟ فرمایا : عر بی جانور چارہ دانتوں سے چبا کر کھا تا ہے ، پورے کا پورا منہ بھر کر نگل نہیں جاتا۔“(یعنی قلیل پر اکتفاء کر لیتا ہوں زیادہ حاصل کرنے کی خواہش نہیں رکھتا ۔ )
فاروق اعظم اور بیت المال سے قرض :
امیر المؤمنین سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جب بھی حاجت ہوتی تو آپ بیت المال سے قرض بھی لے لیا کرتے تھے بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ بیت المال کے نگران آپ کے پاس قرض کی واپسی کا مطالبہ لے کر آتے مگر آپ کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہ ہوتا تو اس سے مہلت لیتے ، بعض اوقات کچھ مال ہوتا تو قرض ادا کر دیتے ۔ ایک دن آپ مسجد میں آ کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اس بات کی شکایت کی تو آپ کے لیے گھی کا ایک ڈبہ بھیج دیا گیا لیکن آپ نے لوگوں سے فرمایا : اگر تم لوگ مجھے اس کے استعمال کی اجازت دیتے ہو تو ٹھیک ورنہ یہ مجھ پر حرام ہے ۔
بیت المال سے فاروق اعظم کے اخراجات :
حضرت سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے بقدر کفایت ہی خوراک لیا کرتے تھے ، گرمیوں میں ایک خلہ لیتے اگر وہ کہیں سے پھٹ جا تا تو اسے پیوند لگا لیتے ، جب تک اس سے کام چلتا چلاتے اور پھر اسے تبدیل کر لیتے ، ہر سال پچھلے سال سے کم ہی مال لیتے ۔ام المؤمنین حضرت سید نا حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ سے اس معاملے میں بات کی تو آپ نے فرمایا : میں مسلمانوں کے مال سے اپنے خرچے کے لیے مال لیتا ہوں اور مجھے اتناہی مال کفایت کرتا ہے ۔
فاروق اعظم کے یومیہ اخراجات :
حضرت سید نا محمد بن ابراہیم علیہ رحمۃ الرحیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کان عمر رضي الله عنه يستنفق كل يوم درهمين له و لعیالہ یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اور اپنے گھر والوں پر یومیہ فقط دو در ہم خرچ کیا کرتے۔
فاروق اعظم کے حج کے اخراجات :
حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود بیت المال سے کتنے قلیل اخراجات لیا کرتے تھے ، آپ کی آمدنی دن بدن کم ہوتی تھی زیادتی کا کوئی تصور نہ تھا کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے اموال کا امین سمجھتے تھے اور ان کے مال میں بے جا تصرف کو خیانت سمجھتے تھے ، یقینا سیرت فاروقی کے اس مدنی پہلو میں ان تمام حکمران و ذمہ داروں کے لیے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں جن کا تعلق رعایا کے مالی معاملات سے ہے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے منصب کو مال و دولت کمانے کا ذریعہ نہ بنایا مگر افسوس ! آج منصب وعہدے کو اپنی آمدنی بڑھانے کا آسان ذریعہ تصور کیا جا تا ہے اور عذابات آخرت کو بھول کر زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے غیر شرعی طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔حالانکہ ادھر انسان کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر مال کا ساتھ ختم ! کتنی پریشان کن بات ہے کہ انسان دنیا سے پھوٹی کوڑی تک بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا مگر حساب اسے سارے مال کا دینا پڑے گا ۔ یقینا یہ بے وفا دنیا نہ پہلے کسی کی ہوئی نہ اب ہوگی ، اس دنیا کے مال و اسباب کے پیچھے ہم کتنا ہی دوڑیں یہ پیٹ بھر نے والا نہیں ہے جیسا کہ ہمارے پیارے آقامدینے والے مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے : اگر انسان کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا ، انسان کا پیٹ تو مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔