فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی معاملہ فہمی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ نے جہاں فراست جیسی بے شمار با کمال خو بیاں عطا فرمائی تھیں وہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ معاملہ بھی جیسے وصف سے بھی بدرجہ اتم متصف تھے ، یوں تو آپ رضی اللہ تعال عنہ کی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے وہ اسی صفت کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ معاملہ فہمی اللہ کا عطا کردہ ایک ایسا وصف ہے جو صرف مخصوص افراد ہی کے حصے میں آتا ہے ۔ کیونکہ معاملہ فہمی اور فراست دونوں کا گہرا تعلق ہے ، جوشخص فراست سے محروم ہوتا ہے وہ کبھی بھی معاملہ فہم نہیں ہوسکتا ، کیونکہ جہاں نرمی سے کام لینا ہے وہاں غصے سے کام لینا یا اس کے برعکس کرنا یقینی معاملہ فہمی نہیں بلکہ معاملے کومزید خراب کرنے والی بات ہے ۔ فراست ومعاملہ فہمی سے متعلق ایک مشہور مقولہ ہے کہ جسے یقین آگیا کہ کہاں کیا بولنا ہے یا کس وقت کیا کرتا ہے یقینا وہ دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ یقینا اللہ عزوجل کی عطا اور اس کے فضل وکرم سے اپنی انہیں صفات کے سبب دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ آپ رضی اللہ تعال عنہ کی حیات طیبہ کے معاملہ فہمی سے متعلق چند گوشے ملاحظہ کیجئے :
قبول اسلام کے فورا بعد اسلام کو ظاہر کرنا :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اسلام قبول کیا اس وقت صرف انتالیس لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا یعنی مسلمان بہت ہی قلیل تعداد میں تھے ۔ کفار قریش میں صرف دو ہی ایسے لوگ تھے جو اپنے رعب و دبدبہ میں مشہور تھے ، جن کے نام سے لوگ کانپ جاتے تھے ، ایک تو حضرت سید نا امیر حمزہ رضی الله تعال علم اور دوسرے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ۔ آپ سے پہلے حضرت سید نا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسلام قبول کر چکے تھے ، اب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا ، کفارجن دوقوتوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے ، اب وہ دونوں ہی مسلمانوں کے پاس تھیں لہذا ان دو ۲ قوتوں کے ہونے کے باوجوداگر مسلمان اب بھی کھل کر کفار کے مقابلے میں نہ آتے تو کفار کا غلبہ یقینی تھا لیکن امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ نے جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈالا تو اللہ نے آپ کی فراست و معاملہ فہمی دونوں صفات میں برکت عطا فرمادی اور آپ نے ان دونوں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے وقت کے تقاضے کے مطابق بارگاہ رسالت میں یہ مدنی مشورہ پیش کردیا کہ یارسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم ! میں اسلام قبول کر چکا ہوں لہذا مسلمان اب چھپ کر نماز ادانہیں کریں گے بلکہ اعلانیہ خانہ کعبہ میں نماز ادا کریں گے اور رسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم نے بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس مدنی مشورے کی موافقت فرما کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فراست اور معاملہ فہمی دونوں صفات پر مہر نبوی ثبت فرمادی ۔
اعلانیہ ہجرت کرنا :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی اعلانیہ ہجرت بھی آپ کی معاملہ فہمی کا شاہکار ہے کیونکہ جب کفار مکہ کے ظلم و ستم میں بہت تیزی آگئی اور مسلمانوں کا مکہ مکرمہ میں جینا دوبھر ہو گیا تو سرکار صلی اللہ تعال عليه واله وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کر نے کا حکم دے دیا اور مسلمانوں کی ایک تعداد حبشہ ہجرت کر گئی ۔مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے کفار مزید بھڑک گئے اور انہوں نے بقیہ مسلمانوں کو مزید اپنے ظلم وتشد دکا نشانہ بنانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں اللہ کے محبوب ، دانائے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو مدینہ منورہ ہجرت کر نے کا حکم دے دیا ۔ جب مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی تو کفار مکہ کے دلوں میں فطرتا ایک خیال پیدا ہوا کہ مسلمان اب ہم سے ڈر گئے ہیں جبھی تو مکہ سے حبشہ ہجرت کر رہے ہیں ، لیکن جب رسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا تو یہ خیال ان کے دل میں مزید تقویت پا گیا کہ واقعی مسلمان تو اب بہت کمزور ہو چکے ہیں کہ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور اب شاید سب ہی مدینہ منورہ ہجرت کر جائیں گے ۔
یہ ایک ایسا وقت تھا کہ اگر کفار مکہ کے اس فاسد خیال کو ٹھیس نہ پہنچائی جاتی تو وہ مکہ مکرمہ میں بقیہ مسلمانوں کو مدینہ منورہ ہجرت سے روکنے کے ساتھ ساتھ شدید ظلم وستم کا نشانہ بناتے ۔ایسے نازک وقت میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی باکمال فراست سے جان لیا کہ کفار مکہ کے اس فاسد خیال کو چکنا چور کرنا بہت ضروری ہے لہذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام مسلمانوں کے برعکس بالکل اعلانیہ اس طرح ہجرت کی کہ تلوار زیب تن کر کے کمان کا ندھے پر لٹکائی ، تیروں کا ترکش ہاتھ میں لیا اور پہلو میں نیزہ لے کر حرم روانہ ہوۓ ۔ کعبۃ اللہ شریف کے صحن میں قریش کا ایک گرو د موجود تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پورے اطمینان سے سات چکر لگا کر طواف مکمل کیا ۔ پھر سکون سے نماز ادا کی ۔ کفار کے ایک ایک حلقے کے سر پر جا کر کھڑے ہوۓ اور ببانگ دھل فرمانے لگے : ’’ تمہارے چہرے ذلیل ہوگئے ہیں ، اللہ ان چہروں کو خاک میں ملا دے گا ، جس نے اپنی ماں کو نوحہ کر نے والی ، بیوی کو بیو و اور بچوں کو یتیم کرنا ہو و و حرم سے باہر آ کر مجھ سے دو دو ہاتھ کر سکتا ہے یہ فرماکر آپ رضی اللہ تعالی عنہ باہر تشریف لے آئے اور کوئی بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے آنے کی جراءت نہ کر سکا ۔
فاروق اعظم مزاج شناس رسول :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ سرکار نامدار ، مدینے کے تاجدار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بات پر جلال میں آ گئے تو آپ بھی اللہ تعالی عنہ نے اپنی معاملہ فہمی سے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے جلال کو جمال میں تبدیل کر دیا ۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں روزے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جلال میں آ گئے ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ بھی وہاں موجود تھے اور آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا غضب اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے اور اگر حالت جلال میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کچھ ارشادفر ماد یا تو یقیناد نیاوآخرت کی تباہی مقدر ہوگی لہذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فورا بارگاہ رسالت میں مؤدبانہ التجا کرتے ہوۓ عرض کی : ’ ’ رضینا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيانعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله يعني يارسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم ! ہم اللہ مال کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلہ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ، ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے غضب سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مزاج شناس رسول تھے ، بعد میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہی سوال رسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم سے اس میٹھے انداز میں کیے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا جلال جمال میں تبدیل ہو گیا ۔
حدیث قرطاس اور فاروق اعظم کی معاملہ فہمی :
شفیع المذنبين ، أنيس الغريبين صلى الله تعالى عليه واله وسلہ کے مرض وفات کا مشہور واقعہ قرطاس ہے جس میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اپنے وصال ظاہری سے تین روز قبل ارشادفرمایا کہ میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم آئندہ بہک نہ سکو۔ایسے نازک وقت میں جب کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم مرض الموت میں ہیں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت موجود صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ والہ وسلم درد کی شدت میں ہیں لہذا قلم دوات لانے کی حاجت نہیں ، ہمارے لیے قرآن کافی ہے ۔
رسول اللہ کے وصال ظاہری پر آپ کا فرمان :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مسلمانوں کے لیے سب سے بڑے رنج وغم کا وقت وہ تھا جب تاجدار رسالت ، شہنشاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس دنیا سے وصال ظاہری فرمایا ۔ جہاں مسلمانوں کے لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا وجود نعمت کبیری “ تھا وہیں منافقین و کفار آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وجود مسعود کو اپنے لیے آڑ محسوس کرتے تھے ، اگر مسلمانوں کے قلوب میں اس بات کی خواہش تھی کہ تا قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی قرابت نصیب ہو تو وہیں منافقین و کفار اس بات کے خواہاں تھے کہ معاذ اللہ رسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم اس دنیا سے فی الفور پردہ فرما جائیں ، بلکہ منافقین کی فتنہ انکار زکوۃ و ارتداد جیسی کئی سازشیں بھی تیار تھیں جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وصال پر موقوف تھیں ۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے منافقین کی انہی نا پاک سازشوں کو کمزور کر نے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وصال ظاہری کی خبر کو پھیلنے سے روکا اور بعد وصال مسجد نبوی میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اللہ صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم وصال فرما گئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑادوں گا ۔ ‘ ‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمان بھی منافقین کی سازشوں کو کمزور کرنے کے سلسلے میں بہترین معاملہ فہمی کی عکاسی کرتا ہے ۔