زکوۃ نہ دینے پر ایک عبرتناک واقعہ 

     دور نبوی میں ثعلبہ کے زکوۃ نہ دینے کا واقعہ بڑا مشہور ہے جس کا انجام بہت برا ہوا۔اس کے بارے میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ [صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ] میرے لئے دعا فرمائیں کہ میں مالدار ہو جاؤں ۔ حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ثعلبہ ! بربادی تیری۔ تھوڑا مال جس کا شکر ادا کرتے ہو ایسے بہت سے مال سے بہتر ہے جس کے شکر کرنے کی تو طاقت نہ رکھے ۔

   ثعلبہ نے دوبارہ عرض کیا حضور ! دعاء     فرمائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ اللہ تعالی رسول کے مانند اپنا مال رکھے ؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں یہ چاہوں کہ یہ پہاڑ میرے لئے سونے چاندی کے ہو جائیں تو اللہ تعالی کے فضل سے سونا چاندی ہوکر میرے ساتھ چلیں ۔ ثعلبہ نے پھر عرض کیا قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ اللہ تعالی سے دعاء کریں اور اللہ تعالی مجھے مال عطا کرے تو میں ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا پھر رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔

 اللهم ارزق ثعلبة مالا ۔

 اے اللہ ثعلبہ کو مال عطا فرما ۔

 حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ پھر ثعلبہ نے کچھ بکریاں لیں اور اللہ تعالی شان وہ کیڑوں کی طرح بڑھنے لگیں یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی آبادی میں اس کارہنا دشوار ہو گیا پھر وہ باہر وادی میں جا کر رہنے لگا ۔ ظہر اور عصر کی نماز جماعت سے آ کر پڑھتا اور باقی نماز میں جماعت چھوڑ دی ، اس کا مال اور بڑھ گیا اور اتنی کثرت ہوگئی کہ دور جنگل میں چلا گیا ۔ اب تو جماعت سے بالکل نماز چھوڑ دی البتہ جمعہ کے روز جماعت میں حاضر ہوتا ۔ 

بکریوں کی تعداد بڑھنے لگی یہاں تک کہ مال کی محبت اور کثرت سے جمعہ بھی چھوٹ گیا ۔ آنے جانے والوں سے ملتا اور خبر دریافت کر لیتا ۔

 ایک روز تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ثعلبہ نے کیا کیا ؟ لوگوں نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ! اس نے بکریاں پالیں اور اس کی کثرت کے باعث اس کو مدینہ میں رہنا دشوار ہو گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افسوس کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ ثعلبہ تیرے لئے خرابی ہے ۔

 اسی اثناء میں اللہ عز وجل شانہ نے مال سے صدقات و زکوۃ لینے کا حکم فرمادیا تو رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جہینہ میں سے ایک اور بنو سلیم میں سے ایک آدمی مقرر کیا اور دونوں کو مسلمانوں سے صدقات لینے کی کیفیت لکھ دی اور ان کو کہا کہ ثعلبہ اور فلاں مرد اسلمی کے پاس بھی جانا اور ان دونوں سے صدقات ، یعنی زکوۃ لے آنا ۔ دونوں عامل روانہ ہوکر ثعلبہ کے پاس آئے اور اس کو زکوۃ کے لئے کہا اور حضور اقدس تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان پڑھ کر سنایا ۔ اس نے کہا زکوۃ کا مطلب اور کچھ نہیں یہ تو جزیہ ہی کی ایک قسم کا صدقہ ہے میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ زکوۃ کیا ہے ، اچھا تم جاؤ اور فارغ ہوکر میرے پاس ہوتے جانا ۔

وہ دونوں مرد اسلمی کی طرف روانہ ہوۓ ، جب اس نے صدقہ کا حکم نازل ہونے کا حال سنا تو اپنے اونٹوں میں سے اچھے اچھے صدقہ کے لئے الگ کر لئے اور اس نے دونوں کا استقبال کیا ۔ ان عاملوں نے اونٹوں کو دیکھا تو کہا بھائی ! ایسے عمدہ اور اچھے اونٹ چھانٹ کر دینا تم پر واجب نہیں اور ہم تجھ سے یہ نہیں لینا چاہتے ۔ اس نے کہا واجب نہ سہی مگر میرے دل کی خوشی اس میں ہے کہ لے لو  یہ سب ز کوۃ ہی کے لئے ہے ۔ پھر انہوں نے وہ اونٹ لے لئے اور اسی طرح حکم کے مطابق دیگر لوگوں سے صدقات لیتے ہوئے پھر ثعلبہ کی طرف لوٹ آۓ ۔

ثعلبہ نے کہا وہ فرمان تو دکھاؤ ۔ جب دکھایا تو اس کو پڑھ کر کہنے لگے یہ اور کچھ نہیں جزیہ ہے ۔ یہ جزیہ ہی کی ایک قسم کا صدقہ ہے ، اچھا اس وقت تو تم جاؤ 

میں اس بارے میں اپنی رائے سے غور کروں گا ۔

وہ دونوں روانہ ہوکر رسول عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوۓ ۔ابھی دونوں نے کچھ عرض نہ کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھتے ہی فرمایا کہ ثعلبہ کی بربادی آئی اور مرد اسلمی کو جس نے اچھے اچھے اونٹ چھانٹ کر بخوشی دیئے تھے ، دعا دی ۔ پھر ان دونوں نے سلام عرض کر کے حال بیان کیا کہ ثعلبہ نے ایسا ایسا کہا اور مرد اسلمی نے اس طرح صدقہ بخوشی دیئے ۔

پھر اللہ تبارک وتعالی نے ثعلبہ کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور ان میں سے کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہو جائیں گے تو جب اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے تو اس کے پیچھے اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے ، کیا انہیں خبر ہے کہ اللہ ان کے دل کی چھپی اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہ سب غیبوں کو جاننے والا ہے ۔ ترجمه : کنزالایمان ، سورۂ توبه ]

جب ثعلبہ کی ہلاکت کی آیت اتری تو اس وقت بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ثعلبہ کا کوئی قریبی موجود تھا وہ روانہ ہوکر ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا اے ثعلبہ ! تیرے حق میں قرآن کے اندر یوں حکم نازل ہوا ہے تیری خرابی ہے تو نے کیا کیا ؟ 

بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا میرا صدقہ قبول کر لیجئے۔حضور سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع کر دیا ہے ۔ پھر ثعلبہ نے اپنے سر پر خاک ڈالنی شروع کر دی ۔ آقائے نعمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے 

فرمایا اے ثعلبہ امیر سب تیرا ہی کیا ہوا ہے ۔

سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد اس صدقہ کو خلافت صدیقی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا ۔ پھر خلافت فاروقی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافت عثمانی میں وہ شخص ہلاک ہو گیا ۔

  میرے معزز بھائیو ! ثعلبہ کا واقعہ ہمارے لئے باعث عبرت ہے کہ ثعلبہ پانچوں نماز میں اور جمعہ سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتا تھا اس نے مال کی کثرت چاہی اور حضور اقدس سید دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دعاء سے اسے بے حساب مال مل گیا ۔ جس رب تبارک وتعالی نے اس کو اتنا مال دیا اس رب نے زکوۃ وخیرات کا حکم بھی نازل فرمایا ۔ اگر ثعلبہ زکوۃ دے دیتا تو اس کا باقی مال پاک ہوجاتا اور بابرکت رہتا اور ساتھ ہی ساتھ دینے والے رب کا شکر بھی ادا ہوتا لیکن زکوۃ نہ دینے کے سبب ثعلبہ ہلاک اور برباد ہو گیا اور یہ ظاہر ہے کہ اس نے نہ تو قرآن کے الہامی ہونے کا انکار کیا اور نہ حضور اکرم سید دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کا اور نہ ہی اسلام کو ترک کیا ، تمام باتیں اس میں موجود تھیں ۔اس نے صرف یہ کیا کہ زکوۃ نہ دی۔اس پر آیت بھی اس کی مذمت میں آ گئی اور اسے منافق بھی کہا گیا اور اس کا انجام بھی برا ہوا ۔

آج بھی جو مالدار مسلمان کہلاتے ہیں قرآن مجید اور حضور اکرم سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہیں لیکن زکوۃ نہیں دیتے وہ سوچیں کہ کیسے مسلمان ہیں ؟ رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت کرنے والا ، زکوۃ نہ دینے کے باعث اللہ عز وجل شانہ اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ناراضگی مول لیا اور اپنی عاقبت برباد کر بیٹھا۔زکوۃ نہ دینے والے غور کریں کہ وہ  ثعلبہ کی طرح زکوۃ نہ دے کر اپنا دین و ایمان کیسے سلامتی کے ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں ان کے واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے