حروف جر کا بیان

     حرف : وہ کلمہ ہے جس سے کوئی معنی سمجھ میں نہ آۓ جب تک کہ اسے کسی دوسرے کلمہ سے نہ ملایا جاۓ ۔ اس کی ستر قسمیں ہیں : ( ۱ ) حروف جر ( ۲ ) حروف مشبه بفعل ( ۳ ) حروف عطف ( ۴ ) حروف تنبیه ( ۵ ) حروف ندا ( ۱ ) حروف ایجاب ( ۷ ) حروف زیادت ( ۸ ) حروف تفسیر ( ۹ ) حروف مصدر ( ۱۰ ) حروف تحضیض و تندیم ( ۱۱ ) حرف توقع ( ۱۲ ) حروف استفهام ( ۱۳ ) حروف شرط ( ۱۴ ) حرف ردع ( ۱۵ ) تاے تا نبیث ساکنہ ( ۱۶ ) تنوین ( ۱۷ ) نون تاکید ۔ حروف جر : وہ حروف میں جو فعل یا فعل کا معنی اسم تک پہنچاتے ہیں اور اس اسم کو جر دیتے ہیں ۔ یہ سترہ حروف ہیں جو اس شعر میں جمع ہیں : با و تا و کاف و لام و واو و منذ و مذ، خلا، رب ، حاشا ، من ، عدا ، في ، عن ، على ، حتى ، إلى 

    با : یہ دس معانی کے لیے آ تا ہے : ( ۱ ) الصاق یعنی ایک شے کو دوسری شے سے ملانے کے لیے ، چاہے حقیقتۃً ہو ۔ جیسے بہ دا ۔ یا مجازاً ہو ۔ جیسے مررت بدارک ۔ ( ۲ ) استعانت یعنی مدد طلب کرنے کے لیے ۔ جیسے كتبت بالقلم ۔ ( ۳ ) تعلیل یعنی علت بیان کرنے کے لیے ۔ جیسے انکم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل ۔ ( ۴ ) مصاحبت ۔ یعنی معیت کے لیے ۔ جیسے ذهب زيد بعشيرته ۔ ( ۵ ) تعدیہ کے لیے ۔ جیسے ذھب اللہ بنورهم ” ۔ ( ۲ ) مقابلہ یعنی تبادلہ کے لیے ۔ جیسے بعت هذا بذاك ۔ ( ۷ ) قسم کے لیے۔ جیسے بالله لأجتهدن ۔ ( ۸ ) استعطاف- یعنی رحم طلب کرنے کے لیے ۔ جیسے ارحم بزید ۔ ( ۹ ) ظرفیت کے لیے ۔ جیسے: جلست بالمسجد ۔ ( ۱۰ ) زیادت کے لیے ۔ یعنی کبھی زائدہ ہوتا ہے اور اس کے حذف کر دینے سے معنی میں کچھ خلل پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ جیسے ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ۔

      تا : قسم کے لیے آتا ہے اور صرف اسم جلالت پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے تاللہ لاکيدن اصنامكم ۔ 

    کاف : یہ تشبیہ کے لیے آتا ہے ۔ جیسے علی کزیدٍ ۔ اور کبھی زائدہ ہوتا ہے ۔ جیسے لیس کمثلہ شی ۔ 

    لام : یہ چھ معانی کے لیے آ تا ہے : ( ۱ ) ملک کے لیے ۔ جیسے الدار لسعید ۔ ( ۲ ) تخصیص کے لیے ۔ جیسے الجنّة للمؤمنين ( ۳ ) تعلیل کے لیے ۔ جیسے واقم الصلوۃ لذکری ۔ ( ۴ ) معاقبت ۔ یعنی انجام بتانے کے لیے ۔ جیسے لزم الشر للشقاوة ۔ ( ۵ ) قسم کے لیے ۔ جیسے للہ لا یؤخر الاجل ۔ ( ۲ ) زیادت کے لیے ۔ جیسے ردف لکم یعنی ردفکم ۔

     واو : یہ قسم کے لیے آتا ہے اور ہمیشہ اسم ظاہر پر ہی داخل ہوتا ہے ۔ جیسے و الفجر وليال عشر ۔ 

      مذ منذ : یہ دونوں ابتداے غایت کے لیے آتے ہیں زمانہ ماضی میں ۔ جیسے مارایته من يوم الجمعة – يا – منذ يوم الجمعة ۔ اور کبھی پوری مدت بیان کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ جیسے ما رأيته مذ يومين – يا – منذ يومين ۔

     رب : تقلیل کے لیے آتا ہے اور اس کا مدخول نکرۂ موصوفہ ہوتا ہے ۔ جیسے رب رجل كريم لقيته _ اور کبھی ضمیر مبہم پر داخل ہوتا ہے اور اس کی تمیز نکرۂ موصوفہ ہوتی ہے ۔ جیسے ربه رجلا ۔

      من : یہ چار معانی کے لیے آتا ہے : ( ۱ ) ابتداے غایت کے لیے ۔ جیسے: سبحن الذي أسرى بعبده ليلا المسجد الحرام إلى المسجد الاقصی ۔ ( ۲ ) تبعیض کے لیے ۔ جیسے : أخذت من الدراهم يعنى بعض دراھم ۔ ( ۳ ) بیان کے لیے ۔ جیسے : فاجتنبوا الرجس من الأوثان ۔ ( ۴ ) زیادت کے لیے ۔ جیسے ما جاءني من أحد

   في : ظرفیت کے لیے آتا ہے ۔ چاہے حقیقت ہو ۔ جیسے : الماء في الكوز ۔ یا مجاز ہو ۔ جیسے : لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة_ اور علی کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے : و لأصلبتكم في جذوع النخلۃ۔ 

    عن : یہ بعد بتانے کے لیے آتا ہے ۔ جیسے : رميت السهم عن القوس ـــــــ اور کبھی علی کے معنی میں آتا ہے ۔ جیسے و من يبخل فإنما يبخل عن نفسه يعنى علی نفسہ – 

    علی : یہ استعلا کے لیے آتا ہے ۔ چاہے حقیقۃ ہو ۔ جیسے: زید علی السطح ۔ یا مجازا ہو ۔ جیسے: لفلان علي دين ـ اور کبھی فی کے معنی میں آتا ہے ۔ جیسے: ان کنتم على سفر يعني في سفر ۔      حتی : یہ دومعانی کے لیے آتا ہے : ( ۱ ) انتہاے غایت بتانے کے لیے ، خواہ غایت زمان ہو ۔ جیسے سلٰم ھی حتى مطلع الفجر ۔ یا غایت مکان ہو ۔ جیسے سرت البلد حتى السوق ۔ ( ۲ ) مصاحبت کے لیے ۔ جیسے قرأت وردي حتى الدعاء يعنى مع الدعاء۔ کبھی حتی کا مابعد حتی کے ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے ۔ جیسے : أكلت السمكة حتى رأسھا ۔ اور کبھی داخل نہیں ہوتا ہے ۔ جیسے نمت البارحة حتى الصباح ــ حتى اسم ظاہر پر ہی داخل ہوتا ہے ۔      

   الی : یہ تین معانی کے لیے آتا ہے : ( ۱ ) انتہاے غایت کے لیے ۔ جیسے:سرت من البصرة إلى الکوفۃ ۔ ( ۲ ) مصاحبت کے لیے ۔ جیسے: لا تأكلوا أموالهم إلى أموالكم یعنی مع اموالکم ۔ ( ۳ ) عند کے معنی میں ۔ جیسے السجن أحب إلي مما يدعونني إليه يعنى أحب عندي – کبھی إلی کا مابعد إلی کے ماقبل کے حکم میں شامل ہوتا ہے جب کہ الی کا ما بعد اس کے ماقبل کی جنس سے ہو ۔ جیسے فاغسلوا وجوهكم و ایدیکم إلى المرافق ۔ اور کبھی شامل نہیں ہوتا جب کہ الی کا مابعد ماقبل کی جنس سے نہ ہو ۔ جیسے اتموا الصیام الی اللیل ۔

      خلاء حاشا عدا : یہ تینوں استثنا کے لیے آتے ہیں ۔جیسے جاء القوم خلا سليم ، حاشا سليم ، عدا سليم – کبھی یہ تینوں فعل ہوتے ہیں ، اس وقت اپنے ما بعد کو مفعولیت کی بنا پر نصب دیتے ہیں اور ان کا فاعل ضمیر مستتر ہوتی ہے ۔ جیسے جاءني القوم خلا زيدا ، حاشا زيدا ، عدا زیدا ۔ فائدہ : اگر خلا اور عدا سے پہلے ما ہو ۔ جیسے ما خلا زيدا، ما عدا زیدا ۔ یا یہ دونوں صدر کلام میں ہوں ۔ جیسے خلا البيت زيدا عدا القوم زيدا ۔ تو فعل ہی کے لیے متعین ہوں گے ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے