وسيلے کےثبوت پر تین آیات مبارکه 

وسیلہ تلاش کرو : (1)قرآن پاک میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : یایھا الذین امنوا اتقوا الله وابتغوا إليه الوسيلة وجاهدوا في سبيله لعلكم تفلحون (پ: 6 المائده : 35) ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو اللہ سے ڈرواور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈواور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔مفسّر شهیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیه رحمة الحنان تفسیر نورالعرفان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو اعمال کے ساتھ انبیاء و اولیاء کا وسیلہ بھی ڈھونڈ نا چاہیے کیونکہ اعمال تو اتقوااللہ میں آ گئے تھے ، پھر تلاش وسیلہ کاحکم ہوا ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وسیلہ کی راہ میں کوشش کرنا چاہیے تا کہ وسیلہ حاصل ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی متقی مؤمن بغیر وسیلہ کے رب تک نہیں پہنچ سکتا ، خیال رہے کہ اس حکم میں حضور اکرم صلى الله تعالی علیہ وسلم داخل نہیں کیونکہ آپ سب کا وسیلہ ہیں ، آپ کا وسیلہ کون ہوسکتا ہے ؟ 

وسيلے کےثبوت پر تین آیات مبارکہ

وسیلہ بنانا مقبول بندوں کا طریقہ : 

   ( 2 )قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :  أوليك الذين يدعون يبتغون إلى ربھم الوسيلة أيهم أقرب ويرجون رحمته ويخافون عذابه إن عذاب ربك كان محذورا (پ: 15 ، بنی اسرائیل : 57) ترجمہ کنزالایمان : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔ صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیه رحمة الله ”خزائن العرفان “ میں فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔ مفسّر شهیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمة الحنان ‘ ‘ تفسیر نورالعرفان ‘ ‘ میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے وسیلہ ڈھونڈ نالازم ہے ، رب فرماتا ہے : وابتغوا إليه الوسيلة ( پ :6 المانده : 35 ) ترجمہ کنزالایمان : اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈ و

حضور کے وسیلہ سے دعا کرتے : 

   قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے : ولما جاءهم كتب من عند الله مصدق لما معهم وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا فلما جاءهم ما عرفوا كفروا به فلعنة الله على الكفرين  ( پ:ا ، البقرة : ۸۹ ) ترجمہ کنزالایمان : اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب ( قرآن ) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب ( توریت ) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لا یا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تواللہ کی لعنت منکروں پر صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید  نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی”خزائن العرفان “ میں اس آیت مبارکہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں : سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول سے قبل یہوداپنی حاجات کے لئے حضور کے نام پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کامیاب ہوتے تھے اور اس طرح دعا کیا کرتے تھے : اللهم افتح علينا وانصرنا بالنبي الامی یارب ہمیں نبی امی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما ۔مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مقبولان حق کے وسیلہ سے دعا قبول ہوتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سے قبل جہان میں حضور کی تشریف آوری کا شہرہ تھا اس وقت بھی حضور کے وسیلہ سے خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی ۔ مفسّر شهیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمة الحنان”تفسیر نورالعرفان “ میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : جب بھی اہل کتاب مشرکین سے جنگ کرتے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے دعاء نصرت کرتے تھے کہ خدا یا اس نبی آخر الزمان ( صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ) کے طفیل ہمیں فتح دے ، رب انہیں فتح دیتا تھا ، کیونکہ گزشتہ کتب اور پہلے نبیوں نے حضور ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) کا غلغلہ عالم میں پھیلا دیا تھا ۔ اس آیت میں وہ واقعات یاد دلائے جار ہے ہیں کہ پہلے تم ان کے نام کے طفیل دعائیں مانگتے تھے ، اب جب وہ محبوب ( صلى الله تعالى عليه وسلم )تشریف لے آۓ تو تم ان کے منکر ہو گئے ، معلوم ہوا کہ حضور ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) کے توسل سے دعائیں مانگنا بڑی پرانی سنت ہے اور ان کے وسیلے کا منکر یہودونصاری سے بدتر ہے اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے پہلے ہی خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی ۔ 

آئندہ آنے والوں کے وسیلہ سے دعاما نگنا : 

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ بالا تیسری آیت مبارکہ میں ہے کہ پچھلی امتیں حضور نبی کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے دشمنوں پر فتح کی دعا مانگتی تھیں اور اللہ تعالی انہیں فتح عطافر ما تا تھا ، حالانکہ اس وقت حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دنیا میں تشریف نہ لائے تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آئندہ آنے والوں کے وسیلے سے دعا کرنا بالکل جائز ہے ۔ مثلاً یوں دعا مانگنا بالکل جائز ہے یا اللہ تعالیٰ ! میں تیری بارگاہ میں حضرت سیدنا امام مہدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور قیامت تک آنے والے تیرے تمام برگزیدہ بندوں کا  وسیلہ پیش کرتا ہوں ، تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے ، میری مغفرت فرما ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے