عہد فاروق میں انفرادی ملکیت کی آزادی

   امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق تمام حقوق کی پاسداری کی جاتی تھی ، آپ نے لوگوں کو انفرادی ملکیت کی بھی آزادی عطا فرمائی ۔اگر کسی کی کوئی ذاتی ملکیت ہوتی تو اسے اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خدشہ نہ ہوتا ۔ 

عہد فاروق میں انفرادی ملکیت کی آزادی

اہل خیبر کوعوض میں مال عطافرمایا : 

   رسول الله صلى الله تعالی علیہ وسلم نے اہل خیبر کے یہودیوں کے ساتھ چند زمینی معاہدے کیے تھے جن کی انہوں نے پاسداری نہ کی ، عہد فاروقی میں انہوں نے حضرت سید نا عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر ظلم و تشدد کیا ( حالانکہ معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ ) سید نا فاروق اعظم رضي اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے یہودیوں کو عہد کی خلاف ورزی پر مدینہ منورہ سے نکال دیا ۔البتہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام مسلمانوں کی طرح ان کے حقوق کو قطعاً پامال نہ فرمایا اور ان کی انفرادی ملکیت کا پاس رکھتے ہوئے انہیں اس کے عوض کثیر مال عطا فرمایا ۔

حرم مکی کی توسیع کے لیے گرائے گئے مکانوں کا معاوضہ : 

   آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں انفرادی ملکیت کی آزادی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد الحرام میں نمازیوں کی جگہ تنگ ہوگئی تو آپ نے اس کی توسیع کا ارادہ فرمایا ، توسیع کا سب سے بنیادی اصول یہ تھا کہ توسیع کے نقشے میں جن لوگوں کے ذاتی گھر آرہے تھے ان کو متبادل جگہ پر گھر دیے جائیں یا ان سے ان گھروں کو اچھی قیمت دے کر خرید لیا جائے اور پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ویساہی فرمایا ۔ 

عهد فاروقی اور آزادی رائے: 

   امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارکہ میں آزادی رائے کا تصور بہت وسیع تھا ۔کسی بھی شخص کو حق بات کہنے کی کھلی اجازت تھی اگر چہ وہ بات خلیفہ وقت کے خلاف ہو ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو خود اس بات کا موقع دیا کرتے تھے کہ اپنی رائے پیش کریں اپنا ما فی الضمیر ( یعنی دل کی بات ) بیان کریں ۔ یقینا جتنارعایا اپنے معاشرے کو سمجھتی ہے اتنا فقط ایک عام حاکم نہیں سمجھ سکتا ، جتنارعا یا خود معاشرتی برائیوں کی اصلاح کرسکتی ہے ایک حاکم اپنی کوششوں سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی میں آزادی رائے کو بہت دخل ہے ، جس حکومت میں آزادی رائے کی گنجائش نہ ہو وہ حکومت کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی ۔

مجتہدین کو غیر منصوص علیہ مسائل میں اجتہاد کی اجازت : 

   جن مسائل میں کوئی شرعی نص وارد نہ ہوتی آپ رضی اللہ تعالی عنہ قاضی ومفتی صحابہ کرام علیہم الرضوان کوان میں اجتہاد کی اجازت دیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سید ناشریح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو قاضی مقر فر ما یا تو انہیں ایک مکتوب روانہ فرمایا جس میں انہیں یوں اجتہاد کی اجازت عطا فرمائی کہ اولا کتاب اللہ سے فیصلہ کرو ، پھر سنت رسول اللہ سے ، پھر اجماع امت سے ، اگر ان تینوں سے بھی مسئلے کا حل نہ ملے تو پھر اس میں اجتہاد کرو ۔  

عوام الناس کو نصیحت کرنے کی اجازت : 

   سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے نصیحت و خیر خواہی کو رعایا پر ایک واجبی امر قرار دے دیا تھا ، نیز حاکم وقت کو بھی چاہیے کہ وہ عوام الناس سے نصیحت کا مطالبہ کرے تا کہ انہیں آزادی رائے کا مکمل احساس ہو ۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ایک خطبے میں عوام الناس کو نیکی کی دعوت دینے ، برائی سے منع کرنے اور وعظ ونصیحت کرنے کی اجازت عطا فرمائی ۔ارشاد فر مایا : ”اعينوني على نفسي بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وإحضاري النصيحة فيما ولاني الله من امر کم “یعنی اے لوگو ! نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے منع کر کے اور جن معاملات میں مجھے تمہارا والی بنایا گیا ہے ان میں وعظ ونصیحت کر کے تم لوگ میری مدد کرو 

اے رعایا ! خیر پر ہماری مدد کرو : 

   ایک بار سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فر مایا : ” ايتها الرعية أن لنا عليكم حقا النّصيحة بالغيب و المعاونة على الخير “ یعنی اے لوگو ! ہمارا تم پر حق ہے کہ ہماری غیر موجودگی میں خیر خواہ رہواور خیر پر ہماری مد دکرو 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے