فلسفہ کی تاریخ

فلسفہ لغۃً حکمت ، مسائل علمیہ میں غور وفکر اور اصطلاح میں انسانی طاقت بھر موجودات کے احوال کا علم ۔ جو جتنا ہی زیادہ اشیا کا جانکار ہوگا وہ اتنا ہی بڑا حکیم اور فلسفی ہوگا ۔ حکمت و دانائی خداوند برتر نے انسان کے اندر ودیعت رکھی ہے اور جب سے بنی نوع انسان موجود ہیں اس وقت سے فلسفہ وحکمت بھی ہے ۔ اور یہ علم سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا کیا گیا ۔ ارشادربانی ہے: وعلم آدم الأسماء كلها رب نے آدم کو تمام اشیا کے نام سکھادیے ۔ پھر انسان کو وہ اشیا کے علوم وراثت میں ملے ۔ تو جس نے جتنا محفوظ کیا اور اس میں نظر وفکر کیا وہ اتنا ہی بڑا حکیم ہوا اور اس نظر وفکر میں بعض غلط راہ پر بھی لگ گئے اس لیے اختلاف پیدا ہوا ۔ 

    پہلے یہ علوم مدون نہیں تھے اور نہ اس کی اصطلاحات وضع ہوئی تھیں ۔ اس میں اہل یونان نے پہل کی اس لیے وہ موجد کہلائے ۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں ان میں فلسفہ سے دلچسپی زیادہ بڑھی اور انہوں نے اس کی تدوین کی اس لیے اس فلسفہ کو فلسفہ یونانی اور یونان کو اس کا مرکز تسلیم کرلیا گیا ۔ 

فلسفہ کا دور اول 

    یونانی فلسفہ کا بانی طالیس ملیطی کو کہا جاتا ہے ۔ اساطین حکمت میں ابیز قلس ، فیثاغورس کے سقراط، افلاطون اور ارسطو کو شمار کیا جاتا ہے ۔ آخر الذکر ہی نے علم منطق کو سکندر روی کے حکم سے فلسفہ سے الگ کر کے تدوین کیا اس لیے وہ معلم اول کے لقب سے مشہور ہوا ۔ ارسطو کے بعد بھی یونان میں عرصہ تک فلسفہ کا عروج رہا اور بہت سے فلاسفہ پیدا ہوئے لیکن یونانی حکومت زوال پذیر ہوگئی ۔ روی یونان پر غالب ہو گئے اور انہوں نے دین مسیحی قبول کرلیا ۔ تب شرعًا فلسفہ پر پابندی لگادی گئی اور ہر ایک کو اس کے سیکھنے سکھانے سے منع کردیا گیا ۔ شاہ قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں جمع کر کے ایک بڑے کمرے میں مقفل کر دیں ۔ ( تاریخ اسلام )

  دور دوم 

مدتوں فلسفہ کی تعلیم بند رہی ۔ جب اسلام کا عروج ہوا اور مسلمانوں نے قرآن وحدیث کے علاوہ دوسرے علوم کی طرف بھی توجہ کی تو قسم قسم کے علوم اختراع کئے ۔ اور انہیں تکمیل تک پہونچایا ۔ مثلا اصول تفسیر ، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ نحو صرف معانی ، بیان ، بدیع عروض وقوافی ، تصوف وغیر ہا ۔ 

    ان کو علوم کی طرف بڑھتی ہوئی یہی دلچسپی معقولات کی طرف بھی کھینچ لائی ۔ ان میں اول خالد بن یزید بن معاویہ ہیں جنہوں نے علوم فلسفہ یونانی زبان سے عربی میں منتقل کئے ۔ بنی عباس کے دور خلافت میں اس کی ترقی شروع ہوئی ۔ مامون ( ۱۹۸۔ ۳۱۸ ھ ) نے بھر پور اس پر توجہ صرف کی اور فلسفہ کو بام عروج تک پہونچایا ۔ ( تاریخ اسلام )

    اس نے ایک بارقیصر روم کے پاس لکھا کہ فلسفہ کی تمام کتابیں میرے پاس بھیج دو ۔ قیصر نے تلاش شروع کی تو راہب نے پتہ بتایا کہ فلاں مقام پر ایک مقفل مکان ہے ۔ جس میں قسطنطین نے تمام یونانی کتابیں بند کرادی تھیں ، پھر راہب سے مسلمانوں کے پاس کتابیں بھیجنے کے بارے میں شرعی حیثیت پوچھی تو تجربہ کار راہب نے جواب دیا کہ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ثواب ملے گا ۔ کیونکہ یہ چیزیں جس مذہب میں داخل ہوئیں اس کی بنیادیں ہلادیں ۔ چنانچہ مقفل خزانہ کھولا گیا ۔ اس میں بے شمار قدیم ہونانی کتابیں نکلیں وہ سب مامون کے پاس بھیج دی گئیں ۔ ( تاریخ اسلام )

     مامون نے ان کا ترجمہ کرانا شروع کر دیا ۔ ترجمہ کرنے والے کو مترجم کتاب سے تول کر سونا دیتا ۔ اس کی قدر دانی نے اس انحطاط پذیر بلکہ قدیم و بوسید فلسفہ کو پھر سے شباب بخش دیا ۔ دورسوم 

   چونکہ بہت سے مترجمین نے مل کر ان کتابوں کا ترجمہ کیا تھا اس لیے ان میں باہم بڑا اختلاف تھا ، خلیفہ منصور بن نوح سامانی نے عظیم فلسفی فارابی سے ان کی تلخیص و تہذیب کی فرمائش کی ۔ فارابی نے ان کتابوں کو سامنے رکھ کر ایک نئی کتاب تعلیم ثانی ترتیب دی اس لیے معلم ثانی کہا جاتا ہے ۔ اب یہی کتاب فلسفہ کا مرجع ہوگئی ۔ فارابی مسلمانوں میں سب سے بڑا فلسفی گزرا ہے ۔ 

  سلطان مسعود کے زمانہ میں ایک بار کتب خانہ میں آگ لگ گئی ۔ بہت سی کتابوں کے ساتھ تعلیم ثانی بھی جل گئی ۔اب شیخ بو علی سینا نے ’ ’ شفاء لکھی جو آج منطق و فلسفہ میں سب سے بڑے درجے کی کتاب مانی جاتی ہے شیخ بہت ذہین تھا جو بھی کتاب ایک بار دیکھ لیتا اسے حرف بحرف زبانی یاد ہو جاتی ۔اس کی ’ ’ شفاء تعلیم ثانی کا خلاصہ ہے۔لہذا شیخ کو معلم ثالث کہا گیا ۔ اس کے بعد بھی مسلمانوں میں بہت بڑے بڑے فلاسفہ پیدا ہوئے اور انہوں نے بے شمار کتابیں تصنیف کیں ۔

 دور چهارم

    جب زمانہ خلافت ختم ہو گیا مسلمانوں کی حکومتیں متزلزل ہوگئیں علم وتمدن اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکے ، فلسفہ بھی انحطاط پذیر ہو گیا ۔ یہاں تک کہ اہل اسلام سے علوم حکمت اٹھ کر اہل مغرب میں چلے گئے ۔ انہوں نے ان کو خوب ترقی دی ۔فلسفہ قدیمہ کے اندر ریسرچ کی ۔ اس کی بہت سی باتوں کو صحیح اور کچھ اقوال غلط ثابت کیے تحقیق کی ۔اور اس کا نام فلسفہ جدید یا سائنس رکھا ۔

    آج علم حکمت ان کے یہاں انتہائی عروج و کمال کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔ اور ہمارے یہاں اپنی غریبی مفلسی ، ناقدری فلسفہ کی شرعی حیثیت کا رونا رورہا ہے ۔  

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے