عہدفاروقی کا نظام عدلیه 

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جب بھی کسی اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لا یا جا تا ہے تو اس کے تحت کئی ایک عظیم مقاصد ہوتے ہیں ، ان اہم مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد یہ بھی ہے کہ اس حکومت کو ایسی بنیادوں پر قائم کیا جاۓ جس سے ایک مکمل اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکے ۔ ہرشخص اپنے دائرے میں رہتے ہوۓ اپنی جان ، مال ، آل اولاد وغیرہ دیگر تمام چیزوں کے بارے میں قلبی طور پر مطمئن ہو کر زندگی گزار سکے ۔ اسلامی معاشرے کے قیام کی ایک اہم بنیاد عدل وانصاف کا نفاذ بھی ہے ۔جس حکومت میں عدل و انصاف کا نفاذ ہو وہی حکومت کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن رہتی ہے ۔ جو حاکم عدل وانصاف کے نفاذ کے لیے کوششیں کرتا ہے وہی اپنی رعایا کے دل میں جگہ بنا تا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم و جابر حکمرانوں کا انجام بہت ہی برا ہوا ۔ عادل ومنصف حکمرانوں کو آج بھی خراج عقیدت پیش کیا جا تا ہے ، لوگ نہ صرف ان کو یاد کرتے بلکہ ان کے نظام کو سراہتے اور اس کی اتباع کی کوشش کرتے ہیں ۔جبکہ ظالم و جابر حکمرانوں کو نہ تو کوئی اچھے الفاظوں سے یاد کرتا ہے اور نہ ہی ان کی اتباع کی کوشش کی جاتی ہے ۔ 

عہدفاروقی کا نظام عدلیہ

عہد رسالت سے قبل نام نہاد عدلیہ کا نظام : 

   حضور نبی کریم ، روقت رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد اور بعثت سے قبل جزیرۂ عرب میں با قاعدہ اور منظم کوئی حکومت نہیں تھی ، البتہ قبائلی اور خاندانی طرز کی کئی بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں ، ان میں بھی ایک نام نہاد عدلیہ کا نظام قائم تھا ، مختلف قوموں نے اپنے اپنے اصول وضع کیے ہوئے تھے ، وہ اپنے سارے انتظامی امور علاقائی اور خاندانی رسم ورواج کے مطابق نمٹاتے تھے۔عموما تین طریقے سے معاملہ کا فیصلہ کیا جا تا : ( ۱ ) پنچ کے ذریعے : ایک کمیٹی مقرر ہوتی جوکسی مقدمے کا فیصلہ کرتی اور اس کا فیصلہ حتمی سمجھا جا تا ۔ ( ۲ ) کاہن کے ذریعے : شیطانی معاونت سے مذہبی لوگ کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیتے اور اسے چیلنج کر ناممکن نہ ہوتا ۔ ( ۳ ) تحکیم کے ذریعے : بعض معتبر لوگ خاندانی ومعاشرتی جھگڑوں میں ثالثی کا کردار ادا کرتے اور فریقین ان ہی کے فیصلے کوحتمی سمجھتے ۔ البتہ تمام طریقوں میں تقریبا ایک بات مشترک تھی کہ ان میں عوام وخواص اور امیر وغریب کے درمیان مساوات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھی ۔ دولت مندوں کے لیے عدلیہ کا نظام کچھ اور تھا ، جبکہ غریب عوام کے لیے نظام کچھ اور کسی رئیس زادے کے معاملے میں جب فیصلہ کیا جا تا تو اس کے منصب کوملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ اس انداز میں فیصلہ کیا جا تا جس سے اس کی شخصیت کسی طرح مجروح نہ ہوتی ، جبکہ کسی غلام زادے کے معاملے میں فیصلہ کیا جا تا تو اس انداز میں کیا جا تا کہ خود انسانیت بھی اس فیصلے سے شرما جاتی ۔ کہنے کو تو و ہ’ ’ نظام عدلیہ ‘ ‘ تھالیکن درحقیقت ظلم وستم کا ایک گھناؤ نا بازار گرم تھا ۔ حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسی خاندانی ومعاشرتی عدل وانصاف کی آڑ میں کیے جانے والے ظلم وستم کے خلاف پیغام عدل وانصاف لے کر مبعوث ہوۓ اور سسکتی ہوئی انسانیت کو ظلم وستم سے آزاد کروا کر پورے عالم میں عدل وانصاف کا ڈنکا بجایا ۔ قرآن واحادیث میں عدل وانصاف کا بالکل واضح بیان موجود ہے ۔ 

عدل وانصاف کے تین آیات مبارکه 

   (١)وإن الله يأمركم أن تؤدوا الأمنت إلى أهلها و إذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل إن الله نعما يعظكم به إن الله كان سميعا بصيرا( پ : ٥ ٬النساء : ۵۸ ) ترجمہ کنز الایمان : بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپر د کر و اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے ۔ صدرالافاضل مولا نا مفتی مد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : حاکم کو چاہیے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے : ( ۱ ) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے دوسرے کو بھی دے ۔ ( ۲ ) نشست دونوں کو ایک سی دے ۔ ( ۳ ) دونوں کی طرف برابر متوجہ رہے ۔ ( ۴ ) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے ۔ ( ۵ ) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دلاۓ ۔ 

   (٢)يأيها الذين امنوا کونوا قومين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنان قوم على ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى واتقوا الله إن الله خبير  بما تعملون ( پ:٦ النائده : ۸ ) ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کروانصاف کرو وہ پر ہیز گاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔  

   (٣)إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاي ذي القربى وينهى عن الفحشاء و المنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون (پ:٤ ۱ ، النحل :٩٠ ) ترجمہ کنزالایمان : بےشک اللہ حکم فرما تا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرما تا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرما تا ہے کہ تم دھیان کرو ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے