شب قدر کا خاص وظیفہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بتائیے تو سہی اگر مجھ کو معلوم ہو جاۓ کہ فلاں رات شب قدر ہے تو میں اس رات کیا دعا مانگوں ؟ تاجدار مدنی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ! اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ۔ الہی تو گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے درگز کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے ۔ [ رياض الصالحين]
چار عابد
ابن ابی حاتم میں ہے کہ فخر موجودات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار عابد پیغمبروں کا ذکر کیا جنہوں نے اسی [ 80 ] سال تک اللہ عز وجل شانہ کی عبادت کی تھی ۔آنکھ جھپکنے کے برابر بھی خدائے تعالی کی نافرمانی نہ کی تھی وہ پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام حضرت حزقیل علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو یہ سن کر حیرت و تعجب ہوا کہ اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے فرمانے لگے۔اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آپ کی امت نے اس جماعت کی عبادت پر تعجب کیا تو اللہ تعالی نے اس سے بھی افضل چیز آپ پر نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ افضل ہے اس سے جس پر آپ اور آپ کی امت نے تعجب ظاہر کیا تھا تو آقائے نعمت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین بے حد خوش ہوۓ ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس رات [ شب قدر کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزار ایسے مہینوں کے روزوں اور نمازوں سے افضل ہے جس میں شب قدر نہ ہو ۔
قرآن پاک کا نزول
شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی سب سے بڑی وجہ نزول قرآن ہے اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ إنا أنزلناه في ليلة القدر بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا ۔ترجمه : کنزالایمان ، پ ۳۰ سوره قدر ] قرآن مجید جیسے ہم کلام اللہ کہتے ہیں آسمانی کتابوں کے سلسلے میں آخری اور مکمل کتاب ہے اور اب یہی کتاب روۓ زمین کے انسانوں کے لئے شمع ہدایت ہے اس لئے قرآن پاک کو دنیا کی تمام کتابوں کے مقابلہ میں لاریب ہونے کی برتری حاصل ہے۔قرآن مقدس جس ذات اقدس کا کلام ہے وہ ساری کائنات میں عظیم تر ہے پھر جس پیغمبر اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اس کا نزول ہوا وہ بھی عظیم ہے بلکہ اللہ تعالٰی کا ایسا محبوب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے بلکہ اس کے طفیل میں دنیا قائم ہے وہ شہر بھی دنیا کے تمام شہروں سے افضل ہے ، پھر کیوں نہ اس رات کو بھی عظمت حاصل ہو جس رات میں قرآن مقدس کا نزول شروع ہوا چنانچہ اس رات کو وہ فضیلت حاصل ہوئی کہ اللہ عز وجل شانہ نے اسے قرآن مجید میں لیلۃ القدر [ شب قدر ] کا نام دیا ہے ۔ قرآن پاک کے نزول کا آغاز جب غار حرا میں پہلی وحی سے ہوا تو اس وقت لیلۃ القدر تھی پھر رفتہ رفتہ تئیس [ ۲۳ ] سال تک موقع محل کے مطابق قرآن پاک کی آیات کا نزول ہوتا رہا آخر جب قرآن پاک کی تکمیل ہوئی اور آخری وحی آئی تو اس وقت بھی شب قدر تھی اسی طرح قرآن پاک کا شب قدر کی رات میں نازل ہونے کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ جب اس کا آغاز ہوا تو بھی شب قدر تھی اور جب نزول کا اختتام ہوا تو بھی شب قدر تھی چنانچہ اس نزول قرآن پاک کی وجہ سے اس رات کو وہ عزت و عظمت حاصل ہے جو اور کسی رات کو حاصل نہیں ۔
بیت العزت
اللہ تبارک وتعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس کو رمضان المبارک میں اتارا شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن هدى للناس وبينت من الهدى والفرقان فمن شهد منكم الشهر فليصمه – رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پاۓ ضرور اس کے روزے رکھے ۔ کنزالایمان ، پ ۲ ۷۴ ] –
قرآن مقدس بتمامہ رمضان المبارک کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتا فوقتا اقتضاۓ حکمت جتنا جتنا منظور الہی ہوا حضرت جبرئیل امین علیہ السلام لاتے رہے قرآن مقدس کا یہ نزول تئیس [ ۲۳ ] سال کے عرصہ میں پورا ہوا ۔ خزائن العرفان ) ۔
شب قدر کو عطا فرمانے کی وجہ
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حضور بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ہزار ماہ راہ خدا میں اپنے کندھے پر ہتھیار اٹھاۓ تھے آقاۓ نعمت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس پر اظہار تعجب فرمایا اور اپنی امت کے لئے ایسی نیکی کی تمنا فرمائی اور کہا اے رب ! تو نے میری امت کو سب سے کم عمر والا بنایا اور اعمال میں سب امتوں سے کم کیا ہے ۔ تب اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔ جتنی مدت بنی اسرائیل کے اس آدمی نے راہ خدا میں ہتھیار اٹھاۓ تھے آپ کو اور آپ کی امت کو اس طویل مدت کے مقابلہ میں ایک رات بخشی گئی یہ نعمت عظمی [ شب قدر] اس امت کے خصائص میں سے ہے ۔ مكاشفته القلوب
عظیم تجلی
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ شب قدر میں زمین پر بے شمار فرشتوں کو اترنے کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔انوار چمکتے ہیں عظیم تجلی ہوتی ہے لوگ اس میں مختلف درجات پر فائز ہوتے ہیں ۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر زمین و آسمان کے ملکوت منکشف ہوتے ہیں اور جب ان پر آسانوں کے ملکوت منکشف ہوتے ہیں تو وہ آسمانوں میں فرشتوں کو ان صورتوں میں دیکھتے ہیں جن میں وہ مشغول عبادت ہوتے ہیں بعض قیام میں بعض قعود میں بعض رکوع میں بعض سجود میں بعض اذکار میں بعض شکر میں ، اور بعض تسبیح وتہلیل میں مصروف ہیں ۔ بعض لوگوں پر جنت کے احوال منکشف ہوتے ہیں اور وہ جنت کے محلات ، گھر ، حوریں نہریں ، درخت ، کیاریاں اور جنت کے پھل وغیرہ دیکھتے ہیں اور عرش اعظم کا نظارہ کرتے ہیں ۔ انبیاء ، اولیاء ، اور صدیقین کے مقامات کو دیکھتے ہیں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی آنکھوں سے حجابات اٹھ جاتے ہیں وہ رب ذوالجلال کے جمال آراء کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ پاتے ۔ مكاشفۃ القلوب
تمام ماہ رمضان کے قیام سے بہتر
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ماہ رمضان کو ستائیسویں رات صحیح ہونے تک عبادت میں گزار دی وہ مجھے رمضان کی تمام راتوں سے زیادہ پسند ہے ۔ حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی اے ابا جان [ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ] وہ ضعیف مرد اور عورتیں کیا کریں جو قیام پر قدرت نہیں رکھتے ۔ مالک کونین حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ تکیہ نہیں رکھ سکتے جن کا سہارا لیں۔اس رات کے لمحات میں سے کچھ لمحہ بیٹھ کر گزاریں اور اللہ عز وجل شانہ سے دعا مانگیں مگر یہ بات اپنی امت کے تمام ماہ رمضان کو قیام میں گزرانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ مكاشفۃ القلوب
جنت میں داخل ہوا
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ سیاح لا مکاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے شب قدر بیدار ہوکر [ یعنی عبادت میں گزاری اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ عز وجل شانہ سے بخشش طلب کی تو اللہ تبارک وتعالی اسے بخش دیتا ہے اور اسے اپنی رحمت میں جگہ دیتا ہے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اس پر پر پھیرتے ہیں اور جس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام پر پھیر دیں وہ جنت میں داخل ہوا ۔ مكاشفته القلوب
فرشتوں کو سلام و مصافحہ کرنا
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو حق تعالی فرماتا ہے اے جبرئیل ! [ علیہ السلام] ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر جاؤ ۔ تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت لے کر ایک سبز علم [ جھنڈا] کے ساتھ اترتے ہیں اور کعبہ شریف کی چھت پر نصب [ لگا دینا] کر دیتے ہیں اور پھر فرشتے زمین پر پھیل جاتے ہیں۔سیدنا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے چھ سو بازو ہیں ان میں سے دو کبھی نہیں کھلتے مگر شب قدر میں یہ دونوں بازو مغرب ومشرق سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو کہتے ہیں کہ کھڑے بیٹھے ذکر الہی کرنے والے نماز ادا کرنے والوں کو سلام و مصافحہ کریں اور جو دعاء مانگتے ہیں اس پر آمین کہیں ۔ پھر فرشتے ہر مسلمان کو جو جاگتا ہو بیٹھا ہو نماز پڑھتا ہو ذکر الہی کرتا ہو اسے سلام کرتے ہیں پھر صبح کے وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام پکارتے ہیں اے فرشتو ! چلو وہ عرض کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ایماندار بندوں کی حاجات کے بارے میں کیا حکم فرمایا ہے ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام کہتے ہیں اللہ عز وجل شانہ نے ان پر رحمت کی سب کے گناہ بخش دیے مگر چار قسم کے آدمیوں کے گناہ نہیں بخشے ۔ [ ۱ ] ہمیشہ شراب پینے والا [ ۲ ] والدین کی نافرمانی کرنے والا [ ۳ ] رشتہ توڑنے والا [ ۴ ] ناحق قتل کرنے والا ۔
شب قدر کی تلاش
شب قدر کو رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں [ یعنی۲١ رمضان المبارک سے ۲۹ رمضان المبارک کی شب تک ] تلاش کیا جاۓ ان تاریخوں میں زیادہ مشہور ستائیسویں رات ہے ۔ حضرت امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک کسی تاریخ کو مقرر یقین کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا ۔ حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک اکیسویں شب زیادہ قابل اعتماد ہے ۔ ایک قول ہے کہ انتیسویں رات شب قدر ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی یہی خیال تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ تیئسویں رات کو شب قدر کے قائل تھے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہ پچیسویں شب ہے۔سید نا حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ وہ چوبیسویں شب ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت ابن ابی کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا وہ ستائیسویں رات ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ستائیسویں رات کی تاکید زیادہ ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سی رات شب قدر ہے ۔ غنيۃ الطالبين
سات کے عدد کی خصوصیت اور اس کے نکات
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ بالاسناد حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اپنے اپنے خواب رمضان کے آخری عشرہ میں محبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے اس پر آقائے نعمت حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں کے خواب ستائیسویں رات کے متعلق متواتر (مسلسل) میں اس لئے جو شخص شب قدر کو تلاش کرے وہ ستائیسویں رات کو کرے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں نے طاق [ بے جوڑ ] عددوں پر تو سات سے زیادہ کسی طاق عدد کو لائق اعتماد نہیں پایا پھر جب سات کے عدد پر غور کیا تو آسان بھی سات ، زمین بھی سات ، دن بھی سات ، رات بھی سات ، دریا بھی سات ، صفاومروہ کے درمیان سعی بھی سات ، خانہ کعبہ کا طواف بھی سات ، رمی جمار بھی سات ، انسان کی تخلیق بھی سات اعضاء سے ہے ۔ انسان کے چہرے میں بھی سات سوراخ ہیں ، قرآن مجید میں تم سے شروع ہونے والی سورتیں سات ہیں ۔سورہ الحمد کی آیات سات ہیں ، قرآن مقدس کی قراتیں سات ہیں ، قرآن میں منزل سات ہیں ۔ سجدہ بھی سات اعضاء سے ہوتا ہے ۔ جہنم کے دروازے سات ہیں ، جہنم کے نام سات اور اس کے درجے بھی سات ہیں ۔ اصحاب کہف سات تھے ، سات دن لگا تار آندھی سے قوم عاد ہلاک ہوئی ، حضرت یوسف علیہ السلام سات سال جیل خانہ میں رہے، بادشاہ مصر نے خواب میں جو گائیں دیکھی تھیں وہ سات تھیں ، قحط کے بھی سات سال تھے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے جب حج سے فارغ ہو کر لوٹو تو سات روزے رکھو، نسبتی عورتیں بھی سات ہی حرام ہیں اور سسرالی عورتیں بھی سات ہی حرام ہیں ۔ کتا اگر برتن میں منہ ڈال دے رسول خداصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سات بار پاک کرنے کا حکم دیا جسمیں پہلی بار مٹی سے مانجھنا ہے سورہ القدر کے آغاز سے سلام تک حروف کی تعدادستائیس ہے [ یہاں حروف سے مراد الفاظ ہے]حضرت ایوب علیہ السلام اپنی آزمائش میں سات سال مبتلا رہے۔حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں سات سال کی تھی کہ رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا ۔ سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے شہداء سات طرح کے ہیں [ ۱ ] راہ خدا میں مارا جانے والا [ ۲ ] طاعون سے مرنے والا [ ۳ ] سل کے مرض میں مرنے والا [ ۴ ] ڈوب کر مرنے والا [ ۵ ] جل کر مر جانے والا [ ۲ ] پیٹ کے مرض سے مرنے والا [ ۷ ] وضع حمل میں مرنے والی عورت اور حضرت موسی علیہ السلام کا طول اس زمانے کے سات گز کے برابر تھا اور آپ کے عصا کا طول بھی سات گز تھا جب یہ ثابت ہو گیا کہ اکثر چیزیں سات ہیں تو اللہ تعالی سلام هي حتى مطلع الفجر فرما کر بندوں کو آگاہ کر دیا کہ شب قدر ستائیسویں شب ہے [ یعنی سات کا ہندسہ ستائیس میں شامل ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شب قد رستائیس تاریخ کو ہوتی ہے ۔ غنیۃ الطالبين