انسان کی عقل
شب قدر کی فضیلت اور ثواب عام راتوں سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ قرآن مقدس میں فرمایا گیا ہے "وَمَا أَدْرَكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ “۔ انسان کی عقل کیا اور ادراک کرے گی کہ شب قدر کیا ہے۔ یہ الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس رات کا ثواب جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیا ہے اسے عام انسانوں کے ذہن ادراک نہیں کر سکتے لیکن اس اجر کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اگلی آیت میں واضح کر دیا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ ایک ہزار مہینے کے تراسی سال چار ماہ ہوتے ہیں اگر ایک شخص کی عمراتنی مدت سے زیادہ ہو اور دن رات اللہ عز و جل شانہ کی عبادت میں گزارے اور اس کی اطاعت میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑے تو پھر بھی اس رات کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ عبادت سے مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت اور یاد ہے کہ جس میں کوتاہی نہ ہو۔
عبادت کا مقصد صرف رضائے الہی ہو کیونکہ اگر عبادت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کوئی اور مقصد ہو تو عبادت کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا اور ایسی عبادت کا اللہ عز وجل شانہ کے ہاں کوئی ثواب نہیں۔ عبادت میں ریا کاری سے بھی پر ہیز کرنا چاہئے جو عبادت رضائے الہی کے لئے ہو حقیقت میں وہی عبادت ہے۔ شب قدر کی عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس رات کی عبادت کا معاوضہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایک ہزار مہینے کی عبادت کا ہے گویا کہ شب قدر کا نیک عمل ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو۔
پانچ چیزوں میں پانچ چیزیں چھپی ہیں
ایک مقولہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے اندر چھپا رکھا ہے۔ [1] بندہ کی اطاعت میں اپنی رضا کو [۲] بندہ کی نافرمانیوں میں اپنے غضب کو [۳] درمیانی نماز کو دوسری نمازوں میں [۴] مخلوق میں اپنے اولیاء کو [۵] اور ماہ رمضان المبارک میں شب قدر کو۔[غنيۃ الطالبين)
پانچ مخصوص راتیں
اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب رسول عربی محمدصلی للہ تعالی علیہ سلم کو پانی مخصوص راتیں عطا فرمائی ہیں پہلی رات قدرت اور معجزہ والی رات ہے جس میں انگشت مبارک کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ. پاس آئی قیامت اور شق ہو گیا چاند۔
[ترجمه: کنز الایمان، پ ۲۷ ع ]
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ان کے عصا کے ضرب سے سمندر شگافتہ ہو گیا لیکن رسول عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی انگشت مبارک کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ یہ سب سے بڑا معجزہ تھا۔
دوسری رات دعوت اور قبولیت دعوت کی تھی اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ وَإِذَا صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفْرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ اور جب کہ ہم نے تمہاری طرف کتنے جن پھیرے کان لگا کر قرآن سنتے۔ترجمه : کنز الایمان، پ ۲۶ ع ]
تیسری رات حکم اور فیصلہ کی رات تھی اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ إِنَّا أَنزَلْتُهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍحَكِيمٍ
بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں باٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ترجمه: کنز الایمان، پ ۲۵ ع ۱۱۴
چوتھی رات قرب اور نزدیکی کی تھی یعنی معراج کی رات اللہ عز و جل شانہ ارشاد فرماتا ہے۔ سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقصى.
پا کی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصی۔ترجمه : کنز الایمان، پ ۱۵
پانچویں رات تحیۃ و سلام کی رات ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا
بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ، اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں۔ترجمه : کنز الایمان، پ ۳۰ سوره قدر]
اور یہ شب قدر کی رات ہے۔غنية الطالبين)
شب قدر کی اطلاع
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ سلم اس لئے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرمادیں گے مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی کیا بعید ہے کہ یہ اٹھا لینا اللہ کے علم میں بہتر لہذااب اس رات کو نویں، ساتویں رات اورپانچویں رات میں تلاش کروں[بخاری شریف]
شب قدر میں مومنوں کو اعزاز
روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام شب قدر میں جب آسمان سے اترتے ہیں تو کوئی مسلمان ایسا باقی نہیں رہتا جس سے انہوں نے سلام کر کے مصافحہ نہ کیا ہو اس کی علامت یہ ہے کہ اس شخص کی جلد کے رونگٹے کھڑے ہوں گے اس کا دل نرم ہوگا اور اس کی آنکھ سے آنسو بہیں گے۔
اسی طرح کی ایک روایت میں آیا ہے کہ شہنشاہ دو جہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم امت کے لئے پریشان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد ! [ صلی اللہ تعالٰی علیک سلم] غمگین نہ ہو ۔ میں جب تک تمہاری امت کو انبیاء کے مراتب و درجات عطا نہیں کروں گا ان کو دنیا سے نہیں نکالوں گا اور اس کی صورت یہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے پاس چونکہ فرشتے کلام پیام وحی اور اعزاز لے کر آتے تھے۔ اسی طرح شب قدر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے سلام و رحمت کے ساتھ امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوتےہیں۔غنيۃ الطالبين)
جنت میں ایک شہر
ہزار محل
جو شب قدر میں چار رکعت نماز نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ستائیس بار پڑھے تو اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاۓگا جیسا کہ ابھی پیدا ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے ہزار محل عطا فر مائے گا۔
سمندر کا پانی
حضرت سیدنا عثمان ابن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام نے عرض کیا اے آقا مجھے کشتی چلاتے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا میں نے دریا کے پانی میں ایک بات دیکھی ہے جس کو میری عقل تسلیم نہیں کرتی ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا بات ہے؟ غلام نے عرض کیا ہر سال ایک ایسی رات آتی ہے جس میں سمندر کا پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس بار خیال رکھنا جیسے ہی سمندر کا پانی میٹھا ہو جائے مجھے خبر کر و ۔ جب رمضان کی ستائیسویں رات آئی تو غلام نے آقا سے عرض کیا کہ آج سمندر کا پانی میٹھا ہو چکا ہے۔[تفسیر عزیزی
انتباه
بعض لوگ شب قدر میں عشاء کی نماز کے لئے سات بار اذان کہتے ہیں۔ یہ بے اصل ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔انوار الحديث]
افسوس
پیارے دینی بھائیو! آج کا ماحول ایسا بن چکا ہے کہ لوگ مخصوص راتوں بیداری کا ثبوت تو دیتے ہیں لیکن عبادت نہیں کرتے بلکہ دوستوں کے ساتھ چائے نوشی اور گفتگو طنز و مزاح میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس شب بیداری کا کوئی فائدہ نہیں اس سے بہتر تو یہ ہے کہ عشاء کی نماز با جماعت پڑھ کر سو جائیں تا کہ فجر کی نماز اٹھ کر یا جماعت ادا کر سکیں کہ یہ فرض ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس رات کثرت سے نوافل نمازیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں۔