المفتاح السامی اردو شرح شرح جامی

المفتاح السامی اردو شرح شرح جامی

مولف: مولانا مفتی محمد طاہر مسعود

ناشر: المیزان اردو بازار لاہور

المفتاح السامی اردو شرح شرح جامی
مولانا مفتی محمد طاہر مسعود

https://archive.org/download/DarsENizamiDarjaRabea4thYear/AlMiftahUsSamiUrduSharhSharhUlJami.pdf

READ_ONLINE 

شوال المکرم کے اس راہ میں جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا کی نشاہ ثانیہ ہوئی اور نشاۃ ثانیہ کے پہلے سال درجہ رابعہ تک درجات تعلیم جاری کئے گئے ، دیگر اسباق کے علاوہ درجہ رابعہ کی شرح جامی کا سبق بھی بندہ کے حصہ میں آیا اور مسلسل سات سال یہ کتاب پڑھانے کا موقع ملاء شوال المکرم ۱۳۲۲ء میں جامعہ میں دورہ حدیث شریف کا آغاز ہوا، دورہ حدیث کے اسباق کی وجہ سے بندہ کو شرح جامی کا سبق چھوڑنا پڑا، جن حضرات نے بندہ سے شرح جامی پڑھی تھی، ان میں سے بعض حضرات کا یہ خیال ہوا کہ اگر شرح جامی کے یہ درسی افادات شائع ہو جائیں تو طلبہ کیلئے مفید ثابت ہوں گے ، چنانچہ اس غرض کیلئے گذشتہ سالوں کے اسباق کی لکھی ہوئی کاپیوں کی تلاش شروع کی گئی، مکمل تقریر کہیں سے بھی دستیاب نہ ہو سکی، تو یہ طے ہوا کہ بندہ ایک دفعہ شرح جامی کا سبق دوبارہ پڑھائے ، اور اس سبق کی پوری تقریر ریکارڈ کر کے اسے من و عن لکھا جائے اور تصحیح و غیرہ کے بعد اسے شائع کرایا جائے، بندہ اس کام کیلئے تیار نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت سمجھتا تھا، لیکن مولانا محبوب احمد سلہ نے جو اس کام کے اصل محرک اور داعی تھے ، باصرار بندہ کو اس کام کیلئے تیار کر لیا، چنانچہ ۲۸-۳۲۷ام کے تعلیمی سال میں بندہ نے شرح جامی کا سبق پڑھایا، مولانا محبوب احمد مسلمہ اول تا آخر اس سبق میں شریک رہے اور انہوں نے ہی شرح جامی کی تقریر کو ریکارڈ کرایا، بعد میں مختلف طلبہ کرام سے اسے لکھوایا، تین سال کی محنت کے بعد جب طلبہ کا لکھا ہوا مسودہ بندہ کے سامنے آیا، تو وہ بہت زیادہ قابل اصلاح تھا، اس میں کئی مقام تشنہ اور نامکمل تھے اور بہت جگہ تعبیر ناقص اور ادھوری تھی، ایسے محسوس ہو تا تھا کہ طلبہ نے اس میں اختصار سے کام لیا ہے ، اور اپنے طور پر تقریر کا خلاصہ لکھنے کی کوشش کی ہے، اس طرح یہ مجموعہ کسی بھی طرح اشاعت کے قابل نہیں تھا، بندہ نے بنام خدا اس مسودہ پر کام شروع کیا اور از اول تا آخر نہ صرف اس کی نظر ثانی کی ہلکہ تقریباً اسے از سر لو لکھا، جس کیلئے بندہ کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑی، تاہم اس کا فانکہ یہ ہوا کہ اس میں تقریر و بیان کا رنگ مغلوب ہو کر تحریر و کتاب کا رنگ غالب ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شرح جامی کی ایک مفید شرح تیار ہو گئی، اور عنوانات کے اضافے نے اس کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیا۔


شرح جامی کے مصنف مولانا عبد الرحمن جامی موسی ہے انتہائی ذہین آدمی تھے ، انہوں نے کافیہ کو عجیب انداز سے حل کیا ہے، "شرح جامی ” بہر حال کافیہ کی ایک "شرح” ہے، اسے اس حیثیت میں دیکھا جائے تو شرح جامی بڑے سہل اور آسمان انداز میں کافیہ کو حل کرتی ہے، اور اگر اس کے ایک ایک لفظ کو سوال مقدر کا جواب” بنایا جائے تو اس کی گنجائش بھی معلوم ہوتی ہے، ہمارے مدارس میں عام طور پر شرح جامی اسی دوسرے انداز کے مطابق پڑھائی جاتی ہے۔ بندہ کا دونوں طریقوں اور دونوں انداز کے مطابق شرح جامی پڑھانے کا معمول رہا ہے، پہلے انداز میں کافیہ حل ہو جاتی ہے، اور عبارت میں بیان کیا گیا نحوی مسئلہ بڑی آسانی سے ذہن نشین ہو جاتا ہے، اس کو ” شرح و توضیح کا انداز قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے انداز کے مطابق سوال وجواب کے ذریعے کتاب کو حل کیا جاتا ہے اور اس کو ”سوال وجواب کا انداز ” قرار دیا گیا ہے، رہی یہ بات کہ علامہ جامی کے پیش نظر کون سا انداز تھا اور انہوں نے کس طرح سے کافیہ کو حل کیا ہے، اس بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جاسکتی، البتہ قرین قیاس یہی ہے کہ شارح روی لیہ کے پیش نظر پہلا انداز ہی تھا، اسی لئے انہوں نے اس کا نام "الفوائد الضیائیہ ” رکھا ہے، بہر حال بندہ کے طریق تدریس کے مطابق المفتاح السامی ” میں بھی شروع سے آخر تک مذکورہ دونوں طریقوں کے مطابق کتاب کو حل کیا گیا ہے، اس سے اگر چہ کتاب کی ضخامت بڑھ گئی ہے، لیکن یہ فائدے سے خالی نہیں ہے۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے