اشرف الروایہ شرح اردو شرح الوقایہ آخرین
نام کتاب: اشرف الروایہ شرح اردو شرح الوقایہ آخرین
مولف: مولانا عطا محمد اچکزئ
طابع: زم زم پرنٹنگ کراچی
ناشر: مکتبہ عمر فاروق شاہ کالونی کراچی
اما بعد : زندگی ایک امانت الہی ہے۔ خدواندی دستور حیات کے مطابق زندگی بسر کرنا امانت کی پاسداری کہلاتی ہے۔ خداوندی دستور کا دوسرا نام دین ہے۔ ہر دور میں دین اپنے پیغمبر کی طرف منسوب دین موسوی ، دین عیسوی وغیرہ کہلاتا ہے۔ سب سے آخری دین خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ کی طرف منسوب ہو کر دین محمدی کہلاتا ہے۔ امت مسلمہ دین محمدی ﷺ کے تبعین کا نام ہے۔ دین محمدی کا دوسرا نام دین اسلام کہلاتا ہے۔ دین اسلام درجہ ذیل پانچ چیزوں پرمشتمل ہے۔ (۱) اعتقادات۔ (۲) آداب۔(۳) عبادات ۔(۴) معاملات (۵) عقوبات – (رد اختار /۱۸۶)
زیر نظر تصنیف اشرف الروایہ شرح الوقایہ میں معاملات کے چند شعبہ جات کی تفہیم و تشریح ہے۔
شرح الوقایہ کے متن کا نام
وقایۃ الروایہ ہے۔ یہ متن امام برہان الدین الشریعہ محمود بن صدر الشریعہ احمد بن عبد اللہ حبوبی نے اپنے پوتے عبداللہ بن مسعود بن محمود محبوبی ” حنفی المتوفی (۷۴۷ھ) کی تعلیم کے لیے تصنیف کی ہے۔ عبید اللہ بن مسعود صدر الشریعہ ثانی کہلاتے ہیں۔ وقایہ الروایہ آئمہ مسلمین میں ایک مقبول اور متین متن ہے۔ (مفید منی ۸۶)
وقايه الروایہ کی متعدد شروح لکھی گئی ہیں ۔ ان شروحات میں مقبول ترین شرح ماتن کے پوتے صدر الشریعہ ثانی عبید اللہ بن مسعود (المتوفی ۷۴۷ھ) کی تحریر کردہ ہے۔ یہ شرح چار جلدوں میں : شرح الوقایہ کے نام سے مشہور اور معروف ہے۔ عرصہ دراز سے مدارس عربیہ کے نصاب میں داخل ہے جو اس کے عند اللہ وعند الناس مقبول ہونے کی بین دلیل ہے۔ شرح الوقایہ کی پہلی جلد کتاب الطهارة سے کتاب النکاح تک کے ابواب پر مشتمل ہے ۔ دوسری جلد کتاب النکاح سے کتاب البیوع تک ہے۔ تیسری جلد کتاب الشفعہ سے آخر کتاب تک ہے ۔ شرح الوقایہ کی تألیف ۷۴۳ ھ میں مکمل ہوئی۔ شرح الوقایہ کی تصنیف کو آج تقریبا چھ سو پچاس برس ہو چکے ہیں۔ اس وقت (۱۴۲۹ھ ) وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر انتظام چلنے والے تمام مدارس عربیہ میں شرح الوقایہ جلد ثالث جلد رابعہ شامل نصاب ہیں ۔ عرصہ دراز تک مدارس وفاق میں شرح الوقایہ جلد اول ، دوم داخل نصاب تھیں ۔ ان کی شروحات مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہو جاتی تھیں اس طرح اساتذہ عظام اور طلباء کرام کو ان کے حل میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ حال میں جب شرح الوقایہ اولین کو نصاب سے خارج کر کے آخرین یعنی جلد ثالث اور رابع کو شامل نصاب کیا گیا تو مارکیٹ میں ان دونوں جلدوں کی کوئی شرح میسر نہیں تھی۔ جس بنا پر یہ شرح لکھنے کی ضرورت پیش آئ۔