خاص و عام کا بیان
. خاص ہر وہ لفظ ہے کہ جوکسی معنی معلوم یاسمی معلوم کیلئے انفرادی طور پر وضع کیا گیا ہو۔ نوٹ: مسمی معلوم سے مراد کوئی بھی ذات معلومہ ہے۔ جیسے زید، آدمی ،انسان۔
خاص کی اقسام
خاص کی تین قسمیں ہیں: (۱) خاص الفردجیسے زید “ (۲) خاص النوع جیسے ” رجل “ (۳)… خاص الجنس جیسے انسان.
خاص کا حکم : (۱)… خاص اگر کتاب اللہ میں ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ (۲)…. اگر خاص کے مقابلہ میں خبر واحد یا قیاس آ جائے تو خاص کے حکم میں بغیر کسی تغیر و تبدل کے دونوں کے مابین تطبیق ممکن ہو تو فبھا ، ورنہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا۔
خاص کی مثال : ( خاص الفرد) اللہ عز وجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ [البقرة: ۲۲۸] ترجمہ کنز الایمان : ” اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک اس آیت میں لفظ ”ثلاثة“ ایک عدد خاص ہے جو کہ دو سے زائد اور چار سے کم پر دلالت کرتا ہے۔
عام کی تعریف :
عام ہر وہ لفظ ہے جو افراد کی ایک جماعت کو یا تو لفظا شامل ہو ۔ جیسے: مسلمون “ اور ”مشرکون“، یا معنی ۔ جیسے ”من اور ما“۔
عام کی اقسام
عام کی مندرجہ ذیل دو قسمیں ہیں: (1). عام مخصوص (۲) عام غیر مخصوص
عام مخصوص : عام کے حکم میں سے ایک یا کچھ افراد کو خارج کر دیا جائے تو اسے عام مخصوص کہتے ہیں۔ جیسے اگر کہا جائے : اقتلوا المشركين ولا تقتلوا اهل الذمة یعنی تمام مشرکین کو قتل کر دو سوائے ذمیوں کے تو پہلے قتل کا حکم عام تھا یعنی تمام مشرکین کو قتل کرنے کا حکم تھا پھر بعد میں ذمیوں کو اس حکم عام سے خارج کر دیا گیا۔ لہذا اب ذمیوں کو خارج کر کے جتنے بھی مشرکین بچے وہ عام مخصوص“ کہلائیں گے۔
عام مخصوص کا حکم : اس میں موجود بقیہ افراد کے حکم پر عمل کرنا واجب ہے لیکن ان افراد میں بھی تخصیص کا احتمال باقی رہتا ہے لہذا جب بقیہ افراد کی تخصیص پر کوئی دلیل قائم کی ہو جائے تو ان کو بھی تخصیص کے ذریعے عام کے حکم سے خارج کرنا جائز ہے اور اس کی تخصیص خبر واحد اور قیاس سے کی جاسکتی ہے حتی کہ یہ تخصیص اس وقت تک درست ہے جب تک کہ عام میں کم از کم تین افراد نہ رہ جائیں اور اس کے بعد مزید تخصیص کی ہر گز گنجائش نہیں لہذا اب بلا احتمال اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
عام غير مخصوص : عام کے حکم سے اگر کسی فرد کو بھی خارج نہ کیا جائے تو اسے عام غیر مخصوص کہتے ہیں۔ جیسے اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ﴾ [المزمل: (۲۰) ترجمہ کنز الایمان: "اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو ۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ ”ما“ عام ہے اور اس کے حکم یعنی قراءت سے کسی فرد ( آیت یا سورت ) کو خاص نہیں کیا گیا ، مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک کے کسی بھی مقام سے جتنا چاہو نماز میں تلاوت کرو۔
نوٹ:عام غیر مخصوص کا حکم خاص کی طرح ہے۔
”من“ اور ”ما‘ کا مفہوم اور ان کے ما بين وجه فرق دونوں اصل کے اعتبار سے عموم کے لئے ہیں لیکن خصوص کا بھی احتمال رکھتے ہیں اور وجہ فرق یہ ہے کہ من ذوى العقول کیلئے مستعمل ہے لیکن کسی قرینہ کی بناء پر کبھی غیر ذوی العقول کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ”ما کامعاملہ اس کے برعکس ہے یعنی ما غیر ذوی العقول کیلئے مستعمل ہے لیکن کسی ” قرینہ کی بناء پر کبھی ذوی العقول کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’من‘ کے عموم کی مثال :کسی شخص نے کہا مَنْ شَاءَ مِنْ عَبِيدِى العتقَ فَهُوَ حُرٌّ “ (میرے غلاموں میں سے جو آزادی چاہے وہ آزاد ہے ) اس کے بعد سب غلاموں نے ایک ساتھ ہی آزاد ہونا چاہا تو سب غلام آزاد ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ کلمہ من عام ہے جو تمام غلاموں کو شامل ہے۔
’ما‘ کے عموم کی مثال : امام محمد رحمہ اللہ نے ایک مثال ذکر کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی باندی (لونڈی) سے کہے: ” اِنْ كَانَ مَا فی بطنك غلاماً فانتِ حُرَّةٌ ، ( یعنی اگر تیرے پیٹ میں لڑکا ہے تو تو آزاد ہے ) اس کے بعد اس باندی نے ایک بچہ اور ایک بچی جنی تو وہ آزادی کی مستحق نہیں ہوگی کیونکہ ما ” کا عموم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بچہ ہی جنے لیکن جب اس نے بچے کے ساتھ بچی کو جنا تو کلمہ "ما” کا مقتضی پورا نہ ہونے کی وجہ سے وہ آزاد نہیں ہوگی۔