مرفوعات کا بیان
مرفوعات: وہ اسما ہیں جو علامت فاعلیت پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی آٹھ قسمیں ہیں: (۱) فاعل (۲) نائب فاعل (۳) مبتدا (۴) خبر (۵) حروف مشبه بفعل کی خبر (1) افعال ناقصہ کا اسم (۷) ما ولا مشابه پلیس کا اسم (۸) لائے نفی جنس کی خبر ۔
فاعل کی تعریف مع مثال
فاعل: وہ اسم مرفوع ہے جس سے پہلے کوئی ، یا شبہ فعل معروف ہو اور اس کی نسبت اس اسم کی طرف بطور صفت ہو۔ جیسے مَرِضَ الظَّلْمِيذُ كَلَّمَ اللَّهُ أُخْتِي عَالِمَةٌ بِنْتُهَا . اس تعریف میں شبہ فعل سے مراد مصدر، اسم فاعل، اسم تفضیل ، صفت مشبہ ، اسم فعل اور امثلۂ مبالغہ ہیں کہ یہ سب فعل معروف کا عمل کرتے ہیں۔ جیسے العَجَبَنِي ضَرْبٌ زَيْدٌ عَمروا، زَيْدٌ جَالِسٌ أَخُوهُ. مُحمدٌ أَفْضَلُ الْخَلْقِ، المَدِينَةُ نَظِيفَةٌ شَوَارِعُهَا. هَيْهَاتَ يَوْمُ اللّقَاءِ، الجَامِعَةُ عَلَّامَةٌ أَسَاتِيدُهَا .
ہر فعل کے لیے فاعل مرفوع کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اسم ظاہر ہو ۔ جیسے جَاءَ الْحَقُّ . یا ضمیر بارز ہو۔ جیسے قَرَأْتُ الكِتَابَ. یا ضمیر مستتر ہو۔ جیسے زید ذهَبَ ۔ اور اگر فعل متعدی ہو تو اس کے لیے مفعول بہ بھی ضروری ہے ۔ جیسے قَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ –
اگر فاعل اسم ظاہر ہو تو نفل ہمیشہ واحد ہو گا۔ جیسے قرأ التِلْمِيذُ . خَطَبَ الْعَالِمَانِ. نَصَرَ الْمُسْلِمُونَ – اور اگر فاعل ضمیر ہو تو فعل واحد ، تثنیہ اور جمع ہونے میں فاعل کے موافق ہوگا۔ جیسے اللهُ يَعْلَمُ التلْمِيذَانِ يَنْجَحَانِ . المُعَلِّمُونَ يَنْصَحُونَ . البِئْتُ تَحْفَظُ . اُخْتَايَ تَسْمَعَانِ الْوَالِدَاتُ يُرضِعُنَ.
چار صورتوں میں فعل کو مؤنث لانا واجب ہے:
(۱) فاعل مونث حقیقی ہو، اپنے فعل متصرف سے متصل ہو اور جمع مگر نہ ہو ۔ جیسے سَافَرَتْ فَاطِمَةُ. سَافَرَتِ الْأُخْتَانِ. سَافَرَتِ الْمُسْلِمَاتُ . (۲) فاعل واحد یا تثنیہ مونث کی ضمیر ہو۔ خواہ وہ مونث حقیقی ہو یا غیر حقیقی لفظی ہو یا معنوی۔ جیسے خَدِيجَةُ دَخَلَتْ. الشَّمْسُ طَلَعَتْ. الظُّلَمَةُ انتهت . سُعَادُ جَاءَتُ. أَخْتَايَ تقرآن . يَدَاكَ تعملان . الجوهرتان تلمعان، زینبان تذهبان (۳) فاعل جمع مونث کی ضمیر ہو ۔ چاہے وہ مکسر ہو یا سالم ۔ جیسے النِّسَاءُ خَرَجَتْ النِّسَاءُ خَرَجْنَ. الْمُجْتَهِدَاتُ فَازَتُ. الْمُجْتَهَدَاتُ فُرُنَ. (۴) فاعل جمع مذکر ہو ، غیر عاقل کی ضمیر ہو۔ جیسے الأَيَّامُ مَضَتُ. الْأَيَّامُ مَضَيْنَ.
چار صورتوں میں فعل کو مذکر لانا واجب ہے:
(۱) فاعل الا “ کے بعد ہو۔ جیسے مَا ذَهَبَ إِلَّا فَاطِمَةُ – (۲) فاعل لفظاً مونث ہو اور معنی مذکر ہو ۔ جیسے جَاءَ طَلْحَةُ – (۳) فاعل جمع مذکر سالم ہو ۔ جیسے قَالَ الْمُسْلِمُونَ ۔ (۴) فاعل واحد، یا تثنیہ مذکر ہو ۔ جیسے جَاءَ رَجُلٌ . قَامَ مُسْلِمَانِ. طَلَعَ الْبَدْرُ –
پانچ صورتوں میں فعل کو مذکر یا مونث دونوں استعمال کرنا جائز ہے:
(۱) فاعل مونث حقیقی ، یا مونث لفظی ہو اور فعل و فاعل کے درمیان «إِلّا“ کے علاوہ کوئی دوسرا کلمہ آ گیا ہو۔ جیسے حَضَرَتِ الْيَوْمَ فَاطِمَةُ ، حَضَرَ الْيَوْمَ فَاطِمَةُ . إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ ، فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ . (۲) فاعل مونث مجازی ہو، یا ایسا مونث حقیقی ہو جو نوع انسان سے نہ ہو ، یا ایسا مونث لفظی ہو جس کا استعمال مذکر و مونث دونوں کے لیے ہوتا ہو، یا مونث لفظی غیر جان دار ہو۔ جیسے طَلَعَتِ الشَّمْسُ طَلَعَ الشَّمْسُ سَارَتْ نَاقَةٌ ، سَارَ نَاقَةٌ ، قَالَتْ نَمْلَةٌ ، قَال نَمْلَةٌ تَحَرَّكَتِ الشَّجَرَةُ ، تَحَرَّكَ الشَّجَرَةُ . (۳) فاعل جمع مذکر ہو ، عاقل کی ضمیر ہو ۔ جیسے التَّلَامِيذُ اجْتَهَدَتْ. التَّلَامِيذُ اجْتَهَدُوا۔ (۴) فاعل جمع مکسر ہو ( مذکر ہو، یا مونث) یا اسم جمع تک ہو، یا اسم جنس جمع ہو۔ جیسے قَالَ الرِّجَالُ قَالَتِ الرِّجَالُ . قَامَتِ الْجَوَارِي . قَامَ الْجَوَارِي . الْقَوْمُ . حَضَرَتِ الْقَوْمُ . أَثْمَرَ الشَّجَرُ . أَثْمَرَتِ الشَّجَرُ . (۵) فاعل مونث ہو اور فعل جامد کے بعد ہو ۔ جیسے نِعْمَ الْفَتَاةُ سُعَادُ نِعْمَتِ الْمَرْأَةُ هند –
فاعل کو مفعول به سے پھلے لانے کی صورتیں
عام حالات میں فاعل اور مفعول بہ میں سے کسی کو بھی پہلے یا بعد میں لا سکتے ہیں لیکن چار صورتوں میں فاعل کو مفعول بہ سے پہلے لانا واجب ہے: (۱) فاعل اور مفعول بہ دونوں کا اعراب تقدیری ہو اور التباس کا اندیشہ ہو۔ جیسے طَلَبَ مُوسَىٰ عِيسَى. أَهَانَ عَمِّي أَبِي اور اگر التباس کا اندیشہ نہ ہو تو فاعل کو مفعول بہ کے بعد لانا بھی جائز ہے۔ جیسے اکل الْكُمَّثَرَى يَحْيى (۲) فاعل ضمیر مرفوع متصل ہو۔ جیسے رَأَيْتُ الهلال ۔ (۳) مفعول بہ میں اِلَّا کے ذریعہ حصر کیا گیا ہو ۔ جیسے مَا ضَرَبَ عَلِيٌّ إِلَّا خَالِدًا ۔ (۴) مفعول یہ میں اِنَّمَا کے ذریعہ حصر کا معنیٰ مقصود ہو ۔ جیسے إِنَّمَا ضَرَبَ عَلِيٌّ خَالِدًا ۔
مفعول به کو فاعل سے پھلے لانے کی صورتیں
چار صورتوں میں مفعول یہ کو فاعل سے پہلے لانا واجب ہے: (۱) مفعول به ضمیر منصوب متصل ہو اور فاعل اسم ظاہر ہو ۔ جیسے عَلَّمَنِي رَبِّي۔ (۲) فاعل کے ساتھ ایسی ضمیر ہو جو مفعول بہ کی طرف راجع ہو۔ جیسے دَرَّسَ التِّلْمِيذَ أُسْتَاذُهُ (۳) فاعل میں اِلّا کے ذریعہ معنی حصر مقصود ہو ۔ جیسے مَا ضَرَبَ خَالِدًا إِلَّا عَلِيٍّ – (۴) فاعل میں انما کے ذریعہ معنی حصر مقصود ہو۔ جیسے إِنَّمَا ضَرَبَ خَالِدًا عَلِيٌّ –
فعل اور فاعل کا حذف
جب کوئی قرینہ پایا جائے تو فعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے کوئی شخص پوچھے مَنْ ضَرَبَ ؟ تو آپ جواب دیں زھیر۔ یہ جائز ہے اور یہاں ضرب فعل محذوف ہے۔ اسی طرح قرینہ موجود ہونے کی صورت میں فعل اور فاعل دونوں کو ایک ساتھ حذف کرنا بھی جائز ہے۔ جیسے کوئی شخص پوچھے اُقَامَ زُهَيْرٌ ؟ تو آپ جواب دیں نَعَمُ۔ یہاں قَامَ زُهَيْرٌ پورا جملہ حذف ہے۔
نائب فاعل کی تعریف
نائب فاعل: وہ اسم مرفوع ہے جس سے پہلے کوئی فعل مجہول، یا شبہ فعل مجہول ہو اور اس کے فاعل کو حذف کر کے اس اسم کو فاعل کی جگہ رکھ دیا گیا ہو ۔ جیسے خُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا . الْبَاطِلُ مَخُذُولٌ أَهْلُه . نائب فاعل کو مفعول ما لم يُسمَّ فاعله بھی کہا جاتا ہے۔ اس تعریف میں فعل مجہول سے مراد اسم مفعول اور اسم منسوب ہے۔ جیسے جَاءَ الْمَعْرُوفُ أَصْلُهُ ، أَتَى الرَّجُلُ الْمِسْكِيُّ اس کے فعل کو واحد، تثنیہ، جمع، اور مذکر و مونث لانے کی وہی صورتیں ہیں جو فاعل کے فعل کی ہیں۔