
کافروں کی مایوسی
ہجرت کے بعد گو برابر اسلام ترقی کرتا رہا اور ہر محاذ پر کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کو فتوحات بھی حاصل ہوتی رہیں اور کفار اپنی چالوں میں ناکام و نامراد بھی ہوتے رہے۔
مگر پھر بھی کفار برابر اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہی رہے اور یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی دن ضرور اسلام مٹ جائے گا اور پھر عرب میں بت پرستی کا چرچا ہو کر رہے گا۔ کفار اپنی اسی موہوم امید کی بنا پر برابر اپنی اسلام دشمن اسکیموں میں لگے رہے اور طرح طرح کے فتنے بپا کرتے رہے۔
مگر ۱۰ ھ حجۃ الوداع کے موقع پر جب کافروں نے مسلمانوں کا عظیم مجمع میدان عرفات میں دیکھا اور ان ہزاروں مسلمانوں کے اسلامی جوش اور رسول کے ساتھ ان کے والہانہ جذبات عقیدت کا نظارہ دیکھ لیا تو کفار کے حوصلوں اور ان کی موہوم امیدوں پر اوس پڑ گئی اور وہ اسلام کی تباہی و بربادی سے بالکل ہی مایوس ہوگئے ۔ چنانچہ اس واقعہ کی عکاسی کرتے ہوئے خاص میدان عرفات میں بعد عصر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (جمل ج ١ ص ٤٦٤)
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا(پ ٦ المائدة : ٣)
ترجمہ کنز الایمان : آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا۔ اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔
روایت ہے کہ ایک یہودی نے امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہم یہودیوں پر ایسی آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم لوگ اس دن کو عید کا دن بنا لیتے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کون سی آیت ؟ تو اس نے کہا کہ "الْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ “ (پ ٦ المائدة : ٣) والی آیت۔ تو آپ نے فرمایا کہ جس دن اور جس جگہ اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہم اس کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں وہ جمعہ کا دن تھا اور عرفات کا میدان تھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عصر کے بعد خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ کا مطلب یہ تھا کہ اس آیت کے نزول کے دن تو ہماری دو عیدیں تھیں ۔ ایک تو عرفہ کا دن کہ یہ بھی ہماری عید کا دن ہے۔ دوسرا جمعہ کا دن یہ بھی ہماری عید ہی کا دن ہے اس لیے اب الگ سے ہم کو عید منانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔(تفسیر جمل، ج ۲، ص ١٨٠ ، پ ٦ ، المائدة: ٣)
یہ بھی روایت ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ اے عمر ! تم روتے کیوں ہو؟ تو آپ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارا دین روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن اب جب کہ یہ دین کامل ہو گیا ہے تو یہ قاعدہ ہے کہ "ہر کمالے راز والے” کہ جو چیز اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے وہ گھٹنا شروع ہو جاتی ہے پھر اس آیت سے وفات نبوی کی طرف بھی اشارہ مل رہا ہے کیونکہ حضور ( علیہ الصلوۃ والسلام ) دین کو کامل کرنے ہی کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے تو جب دین کامل ہو چکا تو ظاہر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) اب اس دنیا میں رہنا پسند نہیں فرمائیں گے. (تفسیر جمل علی الجلالین، ج ۲، ص ١٨٠ ، پ ٦ ، المائدة: ٣)
درس ہدایت : (۱) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات پر مہر لگا دی کہ اب کافروں کی کوئی جدو جہد اور کوشش بھی اسلام کو ختم نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ کفار کی امید و آس پر نا امیدی و یاس کے بادل چھا گئے ہیں۔ کیونکہ ان کا اسلام کو مٹا دینے کا خواب اب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
(۲) اس آیت نے اعلان کر دیا کہ دین اسلام مکمل ہو چکا ہے اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں فلاں فلاں مسائل ناقص رہ گئے ہیں یا اسلام میں کچھ ترمیم اور اضافہ کی ضرورت ہے تو وہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے اور در حقیقت وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ملحد اور اسلام سے خارج ہے۔ دین اسلام بلاشبہ یقینا کامل ومکمل ہو چکا ہے اس پر ایمان رکھنا ضروریات دین میں سے ہے۔