ایک آہ! ایک فریاد!!!
نشاط رومی مصباحی
دل و دماغ آج 2020 کی ان خاردار یادوں کی وادیوں میں محو ہیں جب کورونا وائرس پورے شد و مد کے ساتھ جہان ہست و بود پر اثر انداز ہورہا تھا۔ ہر سو خوف و ہراس کا ماحول برپا تھا۔ اب پوری دنیا کی ایسی تصویر بننے والی تھی جس کا ادراک ذہن انسانی سے بالکل ماوار تھا۔ تعلیم گاہوں سے لے کر کاروباری مراکز تک، گاؤں، دیہات سے لے کر شہروں کے گلی کوچوں تک وبائی مرض کی آماجگاہ بننے والے تھے۔ دنیا کی رونقیں اور بہاریں سمٹتی جارہی تھیں گوکہ قیامت کی ہولناک مناظر نگاہوں سے دوچار ہو رہے تھے۔ مدارس میں سالانہ امتحانات بھی سر پر تھے۔ یکایک امتحان منسوخ کرواکر تمام طلبہ کو گھر جانے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ قلبی اضمحلال اور صورت حال سے خائف ہوکر اپنا سامان اٹھائے چند احباب کی معیت میں مئو جنکشن پہنچا۔ مئو سے چھپرہ جنکشن، اور وہاں سے ٹرین بدل کر سمستی پور جنکشن پہنچا۔
عبدالعلیم بھائی کٹیہار تک کی ٹرین معلوم کرنے کی غرض سے انکوائری آفس جا رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے ندا لگائی۔
بھئی کہاں کا ارادہ؟
جی کٹیہار!
آپ کے سامنے ”جانکی ایکپریس“ ہے یہ کٹیہار تو جارہی ہے!
اچھا؟؟؟؟
جی جی!
جھٹ سے ایک ڈبے میں چڑھ گئے۔اور اطمینان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ تھکان سے بدن چور چور تھا، جوں ہی سیٹ پر ٹیک لگایا، آنکھیں لگ گئیں۔ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کے بعد جب بیدار ہوا تو سامنے ”پورنیہ جنکشن“ تھا۔ یہی وہ غیر منقسم پورنیہ (کٹیہار+پورنیہ) ہے جس نے گلستان علم و ادب کی آبیاری کی، جس کے بطن خاکی سے ملک و ملت کے محافظ و مدافع معرضِ وجود میں آۓ۔ کبھی علمی شہرت، ادبی سطوت، اور قومی و ملی خدمت یہاں کے امتیازی نشانات ہوا کرتے تھے۔ مگر گردش ایام نے ان نشانات کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔
گاڑی کافی دیر سے رکی ہوئی تھی۔ ٹرین کی کھڑکی پر سر دھرے انہیں خیالات میں گم تھا کہ نظر پلیٹ فارم کے ایک کونے میں بیٹھی زمانے کی آشفتہ حال، ستم رسیدہ اور بوسیدہ لباس ایک عورت پر پڑی۔ ساتھ میں تین/چار سال کی دو بچی اور گود میں ایک شیر خوار بچہ بھی ہے۔ بچوں کی کٹی پھٹی صورت، الجھے ہوئے بال، جسم پر پڑے گرد و غبار حوادث دوراں کی ستم کشی کا پتا دے رہے تھے۔ زبان اور لباس سے مسلم ہونے کا اندازہ ہوچلا تھا۔ ان کم سن، معصوم چہروں کی بے بسی اور بے کسی پر ماں کی ممتا پریشان و بے حال نظر آرہی تھی۔ پاس ایک سوکھی اور کڑی روٹی ہے۔ اور سوکھی بھی ایسی جسے دیکھ کر لگے کہ سورج کی سخت تپش میں اسے دو چار دن چھوڑ دیا گیا ہو۔ ماں اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کو جذب کرتیں، آہ و فغاں کی ہلکی، ہلکی سسکیاں لیتے ہوئے اس روٹی کو پہلے اپنے منہ سے چبا کر نرم کرتی ہے۔ پھر نوالہ بنا کر ان بچوں کے منہ میں دیتی ہے۔ یہ کمبخت بھوک بھی نا ان زمانے کے ماروں کے ساتھ بھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔
اس دل سوز منظر کو دیکھ کر آنکھیں یکایک بھر آئیں۔ دل اپنی جگہ اس تیزی سے دھڑکنے لگا کہ کہیں وہ باہر نہ آجاۓ۔ پورے وجود میں عجب سی رقت طاری ہوگئی۔ میں اترنے پر آمادہ تھا کہ اتنے میں ٹرین کی سیٹی بج گئی۔
یا اللہ! ٹرین کو ابھی ہی روانہ ہونا تھا؟
اے خدائے برحق! ان دل دوز مناظر کو دیکھ کر زمین کا کلیجہ شق کیوں نہیں ہوجاتا؟ آسمان کا سینہ دہلتا کیوں نہیں؟
گھر پہنچنے کے بعد بھی کئی دنوں تک اس واقعہ کا
اثر مجھ پر طاری رہا۔ جب ذہن میں تصور آتا، دل میں کرب سی محسوس ہوتی۔
صاحبو! مذہب اسلام جو اپنی آفاقی تعلیمات کے حوالے سے افضلیت کا مقام رکھتا ہے۔ ایک اچھی شخصیت کی تعمیر اور اچھے معاشرے کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ حقوقِ انسانی، رواداری اور مساوات کے فروغ و استحکام میں اسلام بے نظیر ہے۔ لہذا ان تعلیمات میں سے پاس، پڑوس اور مخلوق کا خیال رکھنا بھی ہے۔ ان جیسے واقعات آپ بھی اپنی زندگی میں فیس کۓ ہوں گے یا کرتے ہوں گے۔ پاس، پڑوس میں، شہروں کےسڑکوں اور فٹ پاتھوں میں ناجانے اس طرح کے بے شمار لوگ درد و کرب کی سانسیں لے کر زندگی گزارتے ہیں۔ چنانچہ حمیت انسانی و دینی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایک لقمے میں بھی غیر کا حق سمجھیں اور حتی الامکان اس امت کے درد کا مداوا بنیں۔
ایک آہ! ایک فریاد!!!
نشاط رومی مصباحی