گیارہویں شریف کے شرعی تقاضے

    غوث اعظم ، قطب زماں ، تاجدار اولیا حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ ہر قمری ماہ کی گیارہ تاریخ کو اپنے جد امجد سید الانبیا ، خاتم النبيين محمد عربی ﷺ سے منسوب ایصال ثواب کی ایک محفل منعقد کرتے تھے۔اس پاکیزہ بزم میں بطور خاص بغداد شہر اور آبادی سے دور ذکر خدا اور عبادت الہی میں مشغول ان بندگان خدا کو مد عو کیا جا تا کی انسانی آبادی میں جن کا کوئی شناسانہ تھا اور نہ کسی دعوت میں انھیں مدعو کیا جا تا تھا۔ پہلے اس بزم میں اہل اللہ میں ذکر و اذکار اور رسول اللہ ﷺ کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ ہو تا ، ان کی روح کو ایصال ثواب کیا جا تا اور پھر حاضرین ماحضر تناول کرتے 

    حضرت غوث اعظم علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد بطور یادگار تقریب ان کی ذات سے منسوب ہو گئی اور ان کا عرس بھی اسی تاریخ ہونے لگا ، اس لیے آج بھی گیارہویں شریف کی نسبت سے کی جانے والی محفلوں میں عموما لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور اس کا ثواب حضرت غوث اعظم علیہ الرحہ کی روح کو پہنچایا جا تا ہے ۔ 

   ” تحفتہ الابرار “ میں بحوالہ تکملہ ذکر الاصفیاء ‘ ‘ گیار ہویں کی وجہ تسمیہ لکھی ہے کہ آپ ہر ماہ میں گیارہ تاریخ چاند کو عرس رسالت مآب ﷺ کیا کرتے تھے اس وجہ سے گیارہویں آپ کے نام سے مشہور ہے ۔ ( تحفہ ابرار ، ص : 29 )

    گیارہویں شریف ایصال ثواب کی ایک قسم ہے اور ایصال ثواب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ، جس پر علما محققین نے بہت سی کتابیں اور رسالے تحریر کیے ہیں ۔ 

   شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ‘ ‘ ماثبت بالستۃ“ میں لکھتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد شیخ عبد الوہاب متقی مہاجر مکی 9 ربیع الثانی کو غوث اعظم کو عرس کرتے تھے ، بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد مشائخ میں متعارف ہے ۔ ( ماثبت بالسنتہ از : شاہ عبد الحق محدث دہلوی عربی ، اردو مطبوعہ دہلی ، ص : 167 ) 

پھر شیخ محقق یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مشائخ کے اعراس اور ان کے ایام وصال کی اصل کیا ہے ؟ اس سلسلے میں وہ اپنے شیخ امام عبد الوہاب متقی مکی علیہ الرحمہ کا جواب نقل فرماتے ہیں کہ یہ مشائخ کرام کا طریقہ اور دستور چلا آرہا ہے اور اس میں ان کے نیک مقاصد ہوتے ہیں ۔

   سراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : 

    ” حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مدح تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین در میان میں میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر کو ذکر جہر کرتے ، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ، اس کے بعد طعام ، شیرینی کی جو نیاز تیار کی ہوتی تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رخصت ہو جاتے ۔ “ ( ملفوظات عزیزی ، فارسی ، مطبوعہ میرٹھ ، اولی ، ص : 62 )

    اس موضوع پر ایک جامع اور نفیس کتاب مفتی سلامت اللہ نقش بندی رام پوری علیہ الرحمہ نے لکھی ہے جس میں گیارہویں شریف کے جواز و استحسان اور اس کے متعلقات پر فاضل مصنف نے بیس آیتیں ، چھیالیس حدیثیں ، دو نقل اجتماع اور پچاس روایات فقہ وغیرہ درج فرمائیں اور منکرین و معترضین کے ہفوات و شکوک کا رد بلیغ فرمایا ہے ، جو پہلی بار رمضان 1335 ھ مطابق جولائی 1917 ء میں مطبع دبد به سکندری رام پور سے طبع ہوئی ، اس کا دوسرا ایڈیشن مفتی سید شاہد علی رام پوری کے ترجمے اور حاشیے کے ساتھ مکتبہ جمالی ، رام پور سے ربیع الآخر 1408 ھ مطابق نومبر 1987 ء میں چھپا ، اشاعت سوم ذوالحجہ 1417 ھ مطابق اپریل 1997 ء میں المجمع المصباحی مبارک پور اعظم گڑھ کے زیر اہتمام ہوئی ، اس کا حرف آغاز استاذ گرامی صدرالعلماء علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ العالی ( ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبارک) نے تحریر کیا ہے اور اس پر نظر ثانی بھی کی ہے بلکہ ترجمہ شدہ مسودےکانیا مبیضہ تیار کیا اور بہت سے مقامات کا ترجمہ اور توضیح بھی کی ہے ۔ 

   قارئین جانتے ہیں کہ دنیا کو چاند پر پہنچے بر سوں گزر چکے ہیں جس کے ثبوت میں چند تصاویر اور بلند دعووں کے سوا کچھ نہیں پیش ہوالیکن پوری دنیا کویقین دلایا گیا کہ فلاں ملک اور فلاں شخص نے چاند پر قدم رکھ دیا اور چاند کی تسخیر میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کر لی ہے ، اس انسانی عروج کی مختلف ذرائع ابلاغ سے خوب تشہیر کی گئی اور دنیا کو یقین کرنا پڑا لیکن یہی دنیا اب تک ان سوالوں اور شبہے میں الجھی ہوئی ہے کہ کسی مذہبی شخصیت سے منسوب دعوت اور لنگر کا کھانا جائز ہے یا ناجائز انٹرنیٹ پر آج بھی ایسے فتوے اپلوڈ کیے جاتے ہیں جو اس عمل کو ناجائز و حرام بتاتے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرح کے اجتماعی یا انفرادی کاموں سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ، یہ بہت بڑا مذہبی فراڈ اور علمی خیانت ہے ، اور آج کی دنیا میں سانس لینے والے کسی ذی شعور انسان سے اس طرح کے ہفوات کی امید نہیں کی جاسکتی ۔

    گیارہویں شریف کی بیان کردہ حقیقت سے اندازہ ہوا کہ میں خالص ذکر وفکر ، یادالہی ، تلاوت قرآن مجید ، ضرب ہو ، دعوت عام و خاص اور دعاے مسلمین کی محفل ہے اور اجتماعی طور پر ایک متعین تاریخ میں یہ پاکیزہ کام ہوتا ہے جس کے جواز واستحسان پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہے بلکہ غریبوں مسکینوں ، یتیموں ، لاچاروں ، مفلسوں اور کس مپرسی میں جینے والی زندگیوں کو اچھاکھاناکھلا کر جذبہ خیر خواہی کو بڑھاوا دیا ہے ۔

    اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی وسعت بھر اس رسم کو باقی رکھیں اور اس کا تقدس پامال نہ ہونے دیں ، بلکہ اس دن کو اور یاد گار بنانے کی کوشش کریں ، لیکن یہ ضرور خیال رکھیں کہ ہمارا کوئی کام خلاف شرع نہ ہو ، ورنہ ہم بھی مجرم ٹھہریں گے اور اس کام کے سبب ہماری مذہبی شناخت بھی مجروح ہوگی ۔ آپ اس بات کی بالکل پروانہ کریں کہ کسی جدید رسم کی بنیاد ڈالنے جیساعمل ہے کیوں کہ دنیا میں ہر آن بدلا اور اضافہ ہو تارہتا ہے ، یہ دنیا مسلسل تغیر پذیر ہے بہ قول ڈاکٹر محمد اقبال لاہوری : 

  یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید.    کہ آ رہی ہے دما دم صداے کن فیکون

 شریعت مطہر نے ہمیں نئی ایجادات اور جدید وسائل سے مستفیض ہونے سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ جائز حدوں میں رہ کر ان کے استعمال کی اجازت دی ہے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس ترقی پذیر دنیا میں زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ۔

    ذرا غور کریں !نقل و حمل کے ذرائع ، ابلاغ و صحافت کے و سائل ، جدید کرنسی کی مختلف صورتیں ، معیشت و تجارت کے جدید اصول ، بینکنگ سسٹم ، قیام و طعام کی جدید سہولتیں ، سفر و حضر کی آسان زندگی ، یہ اور اس طرح کی بہت سی نئی چیزیں اور سامان انسانی زندگی کا لازمہ سمجھی جاتی ہیں اور بلا تفریق ملت ہر کوئی ان کا استعمال کرتا ہے ، نیکیوں کے حصول کی تمنا ، انسانیت کی بھلائی کی خاطر کی جانے والی کوششیں ، معاشرتی فلاح وصلاح ، اسلامی ثقافت کی برتری ، مذہبی عظمت و امتیاز اور شریعت کی پاسداری کی ہر ممکن کوشش سے ہماری شریعت نے کہیں ممانعت نہیں کی ہے بلکہ ان امور کی ادائیگی پر حوصلہ افزائی کی ہے اور نیک کاموں کی انجام دہی پر ثواب و انعام کی بشارت بھی دی ہے ۔

   گیارہویں شریف کے موقع پر بھی اگر شرع مطہرہ کی بیان کردہ حدوں کی رعایت کرتے ہوۓ مسلمانوں کی بھلائی اور ان کی اصلاح کا کام کیا جاۓ ، انھیں اصول شریعت سے آگاہ کیا جاۓ ، انھیں مسائل فقہی سکھاۓ جائیں ،ان کی دل جوئی اور غم خواری کی غرض سے دعوت عام کا انتظام کیا جائے تو یہ کچھ غلط نہیں ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس یاد گار بزم کے تقدس کا خیال رکھیں اور خلاف شرع امور سے پاک و صاف رکھنے کی کوشش کریں ، نیز کچھ نئی چیزیں بھی شامل کر لیں جیسے یتیم اور نادار بچیوں کی شادی کے لیے اجتماعی کوشش کرنا ، بیواؤں کو کپڑے اور اچھی چیزیں تحفہ دینا غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ، دعوتوں میں بھی بطور خاص ان بندگان خدا کو بلانا جنھیں کوئی نہیں پوچھتا اور جو اپنی غربت اور مفلوک الحالی کی بنا پر سماجی زندگ کا مزہ نہیں لے پاتے ۔

    اس موقع پر جو مذ ہی پروگرام رکھا جاۓ اس میں بطور خاص حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے کردار و عمل ، ان کی دین پروری ، حلم و بردباری ، صبر ورضا ، احیاے دین ، طلب علم کی راہ کی مشقتوں کو بر داشت کرنا ، ہر لمحہ سچ بولنا ، غریبوں کی دل جوئی کرنا ، اساتذہ کا احترام اور مشائخ کی تکریم کے عظیم ترین کار ناموں کے تفصیلی ذکر پر مبنی تقریریں ہوں اور ایسے دردمند علما و خطبا مدعو کیے جائیں جنھوں نے ان احوال کا سنجیدہ مطالعہ کیا ہو اور سبق آموز گفتگو میں ماہر ہوں اس طرح یہ پروگرام مفید خاص و عام بنایا جاسکتا ہے ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے