کیا بتاؤں تم کو آخر کیا سے کیا ان سے ملا
کیا بتاؤں تم کو آخر کیا سے کیا ان سے ملا
دیں ملا ان سے مجھے رب کا پتہ ان سے ملا
ہے حقیقت جو بھی دنیا میں ملا ان سے ملا
فضل مولیٰ سے ہمیں رب کا پتہ ان سے ملا
پھول ہے جو خوشبوؤں سے مست، ہے اس کی صدا
مجھ میں خوشبو آئی جب فضل خدا ان سے ملا
مالک جنت نبی ہیں سب پہ روشن ہو گیا
مژدہ دس اصحاب کو جب خلد کا ان سے ملا
ایک مدت سے پریشاں ہوں دیار ہند میں
اے مرے مرغ تخیل اڑ ذرا ان سے ملا
بے زبانوں نے بھی کی سرکار کی حمد و ثناء
جس گھڑی بھی حکم مدحت آپ کا، ان سے، ملا
خود کیا الله نے ہے جن کی پاکی کا بیاں
وہ ہیں اہل بیت، ان کو مرتبہ، ان سے ملا
اس زمین و آسماں میں سب ہیں ان سے فیضیاب
لاؤ رب العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
لب پہ پھر آیا نہ ہرگز شکوۂ تشنہ لبی
جب پیالہ ہم کو کوثر کا بھرا ان سے ملا
زہر کھاتا جرم عصیاں پر مگر میں کیا کروں
یہ بھی ارشاد پیمبر خلق کا ان سے ملا
باپ ماں کی خدمتیں واجب ہیں تیرے حکم سے
اور خدمت کا سلیقہ اے خدا ان سے ملا
دشمنان دین جس سے ڈر رہے تھے دہر میں
فاتح کرب و بلا شیر خدا ان سے ملا
میری آوازوں کو ظالم تم دبا سکتے نہیں
ظلم سے لڑنے کا مجھ کو حوصلہ ان سے ملا
تم نے کی گستاخی ان کی اس لیے محشر کے دن
نار میں جانے کا تم کو یہ صلہ ان سے ملا
یہ تو کہیے رب تعالیٰ کا کرم ہم پر ہوا
غوث و خواجہ اور امام احمد رضا ان سے ملا
غوث ہوں ابدال ہوں قطب ہوں اوتاد ہوں
سب کا جا کر کے کنکشن مرحبا ان سے ملا
دہر سے سولہ رجب کو آہ رحلت ہوگئی
درد آنکھوں سے بہا ہے ماں ترے جانے کے بعد
ناز کیوں کر ہو نہ عنبؔر مجھ کو ان کی ذات پر
مجھ کو جو کچھ بھی زمانے میں ملا ان سے ملا