وقت کا کوئی نعم البدل نہیں
الوقت کالسیف ان لم تقتعہ قتعک
وقت بہت قیمتی اور انمول شئی ہے ، جس نے اس کی قدر کی تو اس نے یعنی وقت نے بھی اسے عزت بخشی اور اسے دولت و شہرت سے نوازا ، کام کا انسان بنادیا ۔ جس نے اس کی ناقدری کی تووقت نے بھی اسے بے وقعت کر دیا ، بے کار اور بے قدر بنادیا ۔ یاد رہے وقت ایسی قیمتی شئی ہے اس کے صحیح استعمال کرنے سے فائدے ہی فائدے ہیں اور وقت کو نہیں استعمال کرنے سے وقت کا کچھ نقصان نہیں ہوتا ، کیاوقت واپس نہیں لایا جاسکتا ؟ کیونکہ وقت کو نہیں استعمال کرنے سے یہ ختم ہو جانے والی چیز ہے ختم ہو جاتی ہے ۔ وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ رب العالمین نے اپنی عبادت کو بھی وقت کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ وغیرہ کا وقت مقرر فرمایا ۔
ترجمہ : بیشک نماز مسلمانوں پر وقت میں فرض ہے ۔ ( القرآن ، سور نساء 4 : آیت 103 )
نماز کے اوقات مقرر ہیں لہذا لازم ہے کہ ان اوقات کی رعایت کی جائے ۔ دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ ( القرآن ، سورہ بنی اسرائیل ، 17 : آیت 78 )
رب تبارک و تعالی نے اپنی تمام مخلوق کو کسی نہ کسی کام میں لگایا ہے ، حتی کہ چھوٹا سا کیڑا ، بیکٹیریا بھی اپنی ڈیوٹی پوری کر رہا ہے ، انسان و دوسری مخلوقات کے آرام وضرورت کے لیے رب تبارک و تعالی نے بہترین انتظام کر رکھا ہے ۔ اپنی تمام مخلوقات کی ڈیوٹی لگارکھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے ۔
ترجمہ : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمھارے لیے کام میں لگاۓ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں او تمھیں بھر پور دیں اپنی نعمتیں ۔ ( القرآن ، سوره شمن : 31 آیت 20 )
جو کچھ آسمان میں ہیں جیسے سورج ، چاند اور ستارے اور جو کچھ زمین میں ہیں جیسے دریا ، شہریں ، کانیں ، پہاڑ ، درخت ، پھل ، چوپاۓ وغیرہ ان سب کو اللہ تعالی نے اپنی کامل قدرت سے تمھارے کاموں میں لگارکھا ہے ( جو سب کے سب اپنے وقت پر ) اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں تم آسمانی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور زمینی چیزوں سے فائدہ حاصل کرتے ہو ۔ ( تفسیر کبیر ، ص -124،123 ، تفسیر جلالین ، ص : 347 ، تفسیر مدارک ص : 921 )
سورج ، چاند ، ستاروں کی گردش کی راہیں مقرر فرمائیں ، وقت پر نمازوں کے اوقات بھی مقرر فرمادیے ہیں یہاں تک کہ ہر جاندار کو اپنے وقت مقررہ پر ہی مرنا ہے ، اللہ نے موت کا ایک وقت اور جگہ متعین کر دی ہے اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کی ہر شے کو وقت سے باندھا گیا ہے اور ہرشے وقت کا خیال رکھتے ہوئے ہی وقت کا بھر پوراستعمال کر رہی ہے ۔ انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو وقت کی ناقدری ، بے توجہی کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے نقصان کا دروازہ کھلا چھوڑ رکھا ہے اللہ ہی خیر فرماۓ ۔
وقت کی قدر کرنے والوں کے رجسٹر میں ” کل “ کالفظ کہیں نہیں ملتا : وقت کی اہمیت جاننے اور قدر کرنے والے ہی زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں ۔ کاہلی سستی سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہوتا ، البتہ وقت کی ناقدری کرنے والے ہی زیادہ تر کاہل ، سست ، ٹال مٹول ، تاخیر سے چمٹے رہتے ہیں ۔ کاہل انسان ہی سب سے زیادہ وقت کا خسارہ ، گھاٹا ، نقصان کرتا ہے اور جو وقت کو بر باد کرتا ہے ، وقت بھی اسے کہیں کا نہیں چھوڑ تا ، بر باد کر کے ہی چھوڑ تا ہے ۔ کامیاب لوگوں کی زندگی میں وقت کی قدروقیمت واہمیت اور اسےصحیح طرح سے گزارنے کے اصول ملتے ہیں ۔ تاریخ ساز افراد نے ہمیشہ وقت کو قیمتی سمجھا اور ایک ایک پل کی قدر کی ، تب انہیں مقام و مرتبہ ملا ، جو وقت ضائع کرتے ہیں وہ ہمیشہ ترقی کی منزل سے کوسوں دور رہتے ہیں ۔ کاہلی ، سستی ہمارے دشمن ہیں : وقت کو ضائع کرنے والے زیادہ تر کاہل ہی ہوتے ہیں ۔ کاہلی نہ صرف ہماری بلکہ سماج کے لیے بھی نقصان دہ ہے ، کاہل مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہے ۔ یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہے ، جو شخص نشہ کرتا ہے وہ معاشرے سے کافی حد تک کٹ جاتا ہے ، مگر کاہلی کا شکار فرد معاشرے میں رہ کر معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ امام عبد الرحمن ابن جوزی علیہ الرحمہ( 511 -597 ھ ) نے اپنی کتاب منهاج القاصدین میں توبہ کے باب میں ایک باب الگ سے ” باب تسویف ، (آیند وکرلوں گا ) قائم فرمایا ہے ، کل کرلوں گا کے بارے میں لکھا ہے :
آیندہ پر ٹالنے والے بالعموم ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی جیسی دو چیزوں میں فرق کر جاتے ہیں ۔ آیند پر ٹالنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت اکھاڑ نا ہو ۔ وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے ، شدید مشقت سے اکھڑے گا تو وہ کہے کہ میں ایک سال بعد اس کو اکھاڑنے کے لیے آؤں گا ۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گاوہ مضبوط ہو تا جاۓ گا اور خود اس کی جتنی عمر گزرتی جاۓ گی ، وہ کمزور ہوتا جاۓ گا ۔ جب وہ طاقتور ہونے کے باوجود درخت کی کمزوری کی حالت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ کمزور ہو جائے گا اور درخت زیادہ طاقتور ہو جائے گا تو پھر اس پر کیسے غالب آ سکے گا “ ۔
”ایک حدیث میں ہے کہ ٹال مٹول شیطان کا شعار ہے جسے وہ مومنوں کے دلوں میں ڈالتا ہے ۔ ( سنن دارمی ، حدیث : 145 ، 4363 ) عقل مندوں کے رجسٹروں میں کل “ کا لفظ کہیں نہیں ملتا ، البتہ بیوقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثرت ملتا ہے ۔ ہم اہم اور ضروری نوعیت کے کام جن کی تکمیل سے ہمارا ذاتی ، معاشی ، معاشرتی اور قومی فائدہ وابستہ ہے ، خواہ مخواہ ملتوی کرتے رہتے ہیں اور بڑا نقصان اٹھاتے ہیں اور اپنی ذات و دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ نکال لیتے ہیں ۔ سچائی تو یہی ہے خوش قسمت وہ ہے ، جو اپنی اہم ضرورت کو حاصل کرے ، دوسرے کو چھوڑ دے عمل کی طرف توجہ کرے اور اسی کو مقصود اصل جانے ۔
وقت کی پابندی کامیابی کاراز : ایک علیحدگی پسند ، سفید فام ، قوم پرست یہودی ، امریکی دانشور ، مصنف اور ماہر طبیعات و فلکیات مائيکل ایچ ہارٹ ( Michael H Hart )کی 1978 میں 5 لاکھ سے زائدچھپنے والی اپنی کتاب : دنیا کی 100 عظیم شخصیات میں عظیم ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کو پہلے نمبر پر انتخاب کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ انہوں نے اپنی 63 سالہ زندگی کے مختصر ترین وقت میں بہترین فلاح و بہبود کا عملی نمونہ پیش کر کے اور انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر کے دکھا دیا ، حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنی 60 سالہ زندگی اور دس 10 سالہ دور اقتدار میں بہتر منصوبہ بندی ، صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرتے ہوۓ 22 لاکھ مربع میل پر محیط اور 100 ضلعوں پشتمل سلطنت کا انتظام اور مصر ، ایران ، شام اور موجودہ عراق ، کویت ، ترکی کے بہت سے علاقوں سمیت 4 ہزار 50 سے زائد شہروں کو اپنی دانشمندی ، حکمت عملی ، قوت اور فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔
بل گیٹس 1995 ء سے دنیا کا امیر ترین بزنس مین وقت کی پابندی ، وقت کے ہر لمحے کو منظم اور بہترین طریقہ سے استعمال کر کے کامیاب ہوا ، غیر اہم اور غیر پیداواری کاموں اور رکاوٹ پیدا کرنے اور منفی سوچ والے لوگوں سے بچتا ، قابل اور پیشہ ور افراد کی ٹیمیں بناتا ، تسلسل کے ساتھ گزشتہ تیس سال سے روزانہ پانچ گھنٹے مطالعہ ، ہفتہ میں دو نئی اور سال میں کم از کم 80 کتابیں پڑھتا ، اپنے آپ کو ایک سے زائد کاروبار میں مصروف ، فول پروف مربوط و مضبوط دفتری نظام ، ٹھوس اصول و ضوابط پر سختی سے عمل ، پروگریس رپورٹس ، بیلنس شیٹ اور نتائج پر توجہ دیتاآگے بڑھتارہا ، اس کے پاس وقت کی قلت نہیں ، فراوانی ہے یہ اپنے دفتر کے کاموں کی نگرانی ، گھر بیوی بچوں کے لیے شاپنگ وغیرہ وغیرہ کر تارہا تو دولت ، عزت ، شہرت کا بادشاہ بنا رہا ۔ خدارا خدارا وقت کی قدر کرنا شروع کریں ، وقت آپ کو قدر والا بنادے گا ، جو وقت کی بے قدری کرے گاوقت بھی اسے بے قدر کر دے گا ، پھر اپنی ناکامی کارونا رونے سے اور وقت کے گزر جانے کے احساس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ وقت کی اہمیت وافادیت کو سمجھیں جب رب تبارک و تعالی نے ہر شئی کو وقت کا پابند بنایا 241 قرآن مجید میں وقت کے بارے میں احکامات نازل فرماۓ تواس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔
وقت کے بہترین استعمال سے نتائج اعلی ، غلطیاں کم ، ذہنی دباؤ ختم ، صحت اچھی ، سوچ اچھی ، دوست ، فیملی ، اللہ تعالی راضی ، سبحان اللہ سبحان اللہ اور کیا چاہیے ۔ زندگی میں استعمال نہ ہونے والا وقت واپس نہیں لایا جاسکتا کیونکہ وقت کا نعم البدل نہیں اور استعمال نہ کرنے پر ہی ختم ہونے والی چیز ہے ۔ عربی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے : ” الوقت لسيف ان لم تقطعه قطعك ‘ ‘ وقت تلوار کی طرح اگر آپ اس کو کاٹیں گے لیکن وہ آپ کو ضرور کاٹتی ہے ۔