نو نسل علما سیمانچل کے لیے کیا کریں؟
از: مولنا امن فرحان عزیزی۔۔۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
ہندوستان کے صوبہ بہار میں شمالی و مشرقی حصے پر کثیر آبادی پر مبنی ایک علاقہ واقع ہے جسے لوگ سیمانچل کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ خطہ اپنے دامن میں کئی اضلاع کو سمیٹے ہوۓ ہے (کٹیہار ،پورنیہ ،کشن گنج اور ارریہ)کا شمار سیمانچل میں ہی ہوتا ہے۔ یوں تو سیمانچل کا شمار ہندوستان کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے لیکن یہ علاقہ ماضی ہی سے مردم خیز رہا ہے یہاں کے علما کی خدمات ملک کے طول وعرض میں غیر معمولی رہی ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کی خدمات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے ۔طلبہ سیمانچل تحصیل علم کے لیے ملک کے ہر خطے میں جاتے ہیں اور یہاں کے علما بھی درس وتدریس ،خطابت و امامت کے غرض سے دوسرے علاقوں کا سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں پر اعلی پیمانے پر تعلیمی بیداری نہیں آئی ہے تو ایسے حالات میں جب کہ آج بھی سیمانچل زبوں حالی و دینی پسماندگی کا شکار ہے "پاۓ چراغ تاریک است”کا فقرہ جس علاقے پر صادق آرہا ہو تو ایسے وقت میں نو نسل علما کو چاہیے کہ وہ سیمانچل سے تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے کچھ لائحہ عمل تیار کریں پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے زمینی سطح پر کام شروع کریں۔
سب سے پہلے اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بنائیں پھر نوجوان طبقہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط و مستحکم کریں اور ان کے اندر دینی شعور کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ عوام کے ذہن، عقائد و مسائل کے مابین توازن برقرار رکھنے کے لیے کوشش کریں۔ ایسا ہوتا ہے کہ عوام عقائد میں تو تصلب اختیار کرتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے لیکن روز مرہ کے مسائل سے نا آشنائ رہتی ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے جمعہ کے خطاب میں صرف روایتی تقریر نہ کریں بلکہ انھیں مسائل سکھائیں اور ملی مسائل پر بھی گفتگو کریں۔
ہر ضلع یا ہر علاقے میں متحد ہوکر کوئ تحریک یا تنظیم قائم کیا جاۓ جس کے تحت مسلمانوں کے رفاہی، تعلیمی اور تعمیری خدمات انجام دے جائیں۔ اور وقتاً فوقتاً ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے اور غریب بچیوں کی شادی کا بھی انتظام کیا جائے۔
اگر آپ جلسے میں یا کسی بھی مجلس سے خطاب کریں تو پہلے سے ذہن سازی اور مطالعہ کرکے آئیں پھر خطاب کریں اور سامعین کا بھی لحاظ رکھیں۔ اور جیسی گفتگو کی ضرورت ہو ویسی ہی گفتگو کریں لیکن ہمیشہ گفتگو شستہ،سنجیدہ اور آسان لب و لہجہ ہی میں کریں تاکہ بیک وقت عوام و خواص دونوں ہی آپ سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمارے علاقے میں جتنے بھی مدارس ہیں اس میں نہ کوی نصاب تعلیم ہے اور نہ نظام تعلیم ہے تو پہلے ایک نصاب تعلیم و نظام تعلیم مرتب کریں جو عصری اور دینی تقاضوں کو پورا کر رہا ہو اور مدارس کےذمہ داران کی تحویل میں دیں تا کہ علاقے میں تعلیمی بیداری آسکے۔ علاقائ پر زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوۓ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ مدارس میں مختلف میدانوں کے ماہرین کو بلا کر ان کے توسیعی خطابات کراۓ جائیں تاکہ طلبہ کی فکری ارتقا ممکن ہو سکے فقط حفظ اور ابتدائی ایک دو جماعت کی تعلیم کا انتظام کرکے اور ہندی و انگریزی کی بنیادی کچھ کتابیں پڑھاکر خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ الحاد اور لادینیت بھی علاقے میں بڑھتی ہی جا رہی ہے اس کے انسداد کے لیے نونسل علما کو آگے آنا ہوگا اور مہینے کے کچھ مخصوص ایام میں والدین کی ذہن سازی، اور تربیت اولاد کے متعلق ان سے گفتگو ضروری ہے۔یہ مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی بچی غیر کے ساتھ چلی جاتی ہے یا اپنے ہی کسی لڑکے کے ساتھ چلی جاتی ہے تو والدین کو خوب کوسا جاتا ہے، کچھ دنوں کے بعد سب خاموش ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے انسداد کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اور پاکدامنی کی اہمیت و افادیت کو مسلم بچیوں کے قلوب میں خوب راسخ کیا جائے پھر انھیں دینی فضا میں پروان چڑھایا جاۓ جس کے لیے گرلس اسلامی اسکولز کھولے جائیں اور وہاں بھی دینی و عصری علوم کا حسین امتزاج ہو۔ ساتھ ہی زمانے کے اعتبار سے کچھ عناوین پہ وقتاً فوقتاً توسیعی خطابات کراۓ جائیں۔ اگر مذکورہ بالا نکات پر نو نسل علما کام کریں تو ان شاء اللہ کچھ دنوں سیمانچل میں تعلیمی بیداری آۓ گی۔
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے