مفعول فیہ، مفعول لہ اور مفعول معہ کی تعریف و احکام

مفعول فیہ

مفعول فيه : وہ زمان ، یا مکان ہے جس میں فعل واقع ہو، جیسے : حضرت الفاطمۃ  الیوم۔
 اس کو ظرف بھی کہا جاتا ہے ۔ اور ظرف کی دوسمیں ہیں : ( ۱ ) ظرف زمان ( ۲ ) ظرف مکان ۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی دوقسمیں ہیں : ( ۱ ) مبہم ( ۲ ) محدود ۔ ظرف زمان مبهم : وہ ظرف ہے جس میں وقت کا معنی ہو اور اس کی کوئی معین حد نہ ہو ۔ جیسے عاش نوح دھرا اس جملے میں دھرا مفعول فیہ واقع ہے کیوں کہ زمانے پر دلالت کر رہا ہے۔

     ظرف زمان محدود ؛ وہ ظرف ہے جس میں وقت کا معنی ہو اور اس کے لیے معین حد ہو ۔ جیسے:صمت شھراً اس جملے میں شھراً ظرف ہے  ۔

       ظرف مكان مبهم : وہ ظرف ہے جس میں جگہ کا معنی ہو اور اس کے لیے کوئی معین حد نہ ہو ۔ جیسے جلست خلفك . خطب بكر أمامك یہ تینوں ظروف فی کے مقدر ہونے کی وجہ سے ظرفیت کی بنا پر منصوب ہوتے ہیں ۔ اور اگر فی مقدر نہ ہوتو فی ظروف لفظا مجرور ہوں گے ۔ جیسے عاش نوح في دهر، سافرت في شهر وغيره ۔ 

   ظرف مكان محدود : وہ ظرف ہے جس میں جگہ کا معنی ہو اور اس کے لیے معین حد ہو ۔ جیسے: مشيت في السوق ۔ اس ظرف میں فی کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے ، اسی لیے یہ مجرور ہوتا ہے ۔ اگر ظرف مکان محدود باب دخلت کے بعد ہوتو کثرت استعمال کی وجہ سے فی کو حذف کر دیتے ہیں اور وہ منصوب ہوتا ہے ۔ جیسے دخلت البيت • لتدخلن المسجد الحرام 

       قائم مقام ظرف: پانچ چیزیں ظرف کے قائم مقام ہوتی ہیں اور مفعول فیہ واقع ہوتی ہیں : ( ۱ ) مصدر جو وقت ، یا جگہ کی تعیین پر دلالت کرے ۔ جیسے سافرت طلوع الشمس . جلست قرب الخطيب ۔ ( ۲ ) لفظ كل -يا- بعض جوظرف کی طرف مضاف ہو ۔ جیسے مشیت كل الفرسخ وضمت بعض الشهر ( ۳ ) صفت جوظرف موصوف کے قائم مقام ہو ۔ جیسے سرت قليلا ، یعنی زمنا قلیلا ۔ ( ۴ ) اسم اشارہ ہو جس کا مشارالیہ ظرف ہو ۔ جیسے خطبت ذلك اليوم خطبة جيدة ( ۵ ) اسم عدد جس کی تمیز ، یا مضاف الیہ ظرف ہو ۔ جیسے سافرت أربعين ميلا

   مفعول فیہ کا عامل فعل ، یاشہ فعل ہوتا ہے ۔ جیسے جلست خلفك . أنا صائم غدا_ اس کے عامل کو بھی جوازًا حذف کر دیا جاتا ہے ۔ جیسے يوم الأحد كہنا أي يوم سافرت ؟ کے جواب میں۔ کبھی مفعول فیہ کو اس کے عامل سے پہلے لانا جائز ہوتا ہے ۔ جیسے یوم الجمعة صمت • اور کبھی واجب ہوتا ہے جب کہ مفعول فیہ اسم استفہام ہو ۔ جیسے این تذهب ؟ • متى تقوم الساعة ؟۔

مفعول لہ

    مفعول لہ: وہ اسم ہے جوفعل کے بعد آئے اور اس سے فعل کا سبب معلوم ہو ۔ جیسے قعدت عن الحرب جبنا • ضربتہ تاديبا " ۔ مفعول له اسی وقت منصوب ہوسکتا ہے جب اس میں تین شرطیں موجود ہوں : ( ۱ ) دو مصدر قلبی ہو ، یعنی ایسے فعل کا مصدر ہو جس کا تعلق حواس باطنہ سے ہے ۔ جیسے تعلیم تحقیر علم ، خوف ، ایمان ، حیاوغیرہ ۔ ( ۲ ) مصدر اور اس کے عامل کا زمانہ ایک ہو ۔ ( ۳ ) مصد را ور اس کے عامل دونوں کا فاعل ایک ہو ۔ جیسے تصدقت ابتغاء مرضاة الله 

    وہ مصد قلبی جس میں منصوب ہونے کی باقی شرطیں بھی موجود ہوں تین طرح مستعمل ہے :

   ( ۱ ) وہ مصدرالف لام اور اضافت سے خالی ہو ۔ اس صورت میں اکثر منصوب ہوتا ہے اور کبھی کبھی مجرور ہوتا ہے ۔ جیسے نصحتك رغبة لمصلحتك – يا- نصحتك لرغبة في مصلحتك ( ۲ ) وہ مصدرالف لام کے ساتھ ہو ۔ اس صورت میں اکثر مجرور ہوتا ہے اور کبھی کبھی منصوب ہوتا ہے ۔ جیسے جئت للوفاء بالوعد ” . لا أقعد الجبن عن الهيجاء – ( ۳ ) وہ مصدر مضاف ہو ، اس صورت میں منصوب و مجرور دونوں استعمال یکساں ہے ۔ جیسے ترکت المنكر خشية الله . تركت المنكر من خشية الله، 

     مفعول معہ

مفعول معه :  وہ اسم ہے جو واو بمعنی مع کے بعد آئے تا کہ ظاہر ہو کہ اسے فاعل یا مفعول کی معیت حاصل ہے ۔ جیسے سرت و الجبل، 

   مفعول معہ کو اس کے عامل ، یا مصاحب سے پہلے لانا صحیح نہیں ہے ۔ لہذا والخشبة استوى الماء – يا – استوى و الخشية الماء نہیں کہا جاسکتا ۔ 

    مفعول معہ کے منصوب ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں ( ۱ ) اس کے بغیر جملہ تام ہو جاۓ ۔ ( ۲ ) اس کے پہلے کوئی جملہ ہو ، مفرد نہ ہو ۔ ( ۳ ) جو واو اس اسم سے پہلے آئے وہ مع کے معنی میں ہو ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے