مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات 

انفس وآفاق کے جن چند بڑے مسیحا نفس اولیاے کرام کا نام زبان زد عوام و خواص ہے انہیں میں ایک قد آور اور بیگانہ صفت شخصیت حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفے رضا رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بھی ہے ۔ اسم گرامی محمد ، غیبی نام : آل الرحمن ، پیر و مرشد نے آپ کا نام ابوالبرکات محی الدین جیلانی تجویز فرمایا  عرفی نام مصطفی رضا ہے تخلص : نوری  لقب : مفتی اعظم ہند

مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات

      ولادت باسعادت : حضور مفتی اعظم ہند ۱۲ ذی الحجہ ۱۳۱۰ ھ / جولائی ۱۸۹۳ کو بروزجمعہ محل سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔ ( تذکرۂ علماے اہل سنت ، ص : ۲۲۳ ، محمود احمد رفاقتی ) 

        بشارت نوری : ایک مرتبہ سیدنا اعلی حضرت اپنے مرشد کی بارگاہ اقدس میں مارہرہ مقدسہ کی نورانی حویلی میں رات کو آرام فرما تھے صبح کو فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے اور جب مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے تو نور العارفین حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، آپ کو مخاطب فرماتے ہوئے حضرت نورالعارفین نے بشارت سنائی اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا : مولاناصاحب ! آپ کے یہاں ایک عظیم فرزند کی ولادت ہوئی ہے ، وہ بچہ نہایت مبارک ہے ہم نے اس کا نام ” آل الرحمن ابوالبرکات محی الدین جیلانی رکھا ہے ۔ آپ اجازت دیں تو میں اسے داخل سلسلہ کرلوں ، آپ نے عرض کیا : وہ آپ کا غلام زادہ ہے ، لہذا آپ اس کو غلامی میں قبول فرمالیں ۔ حضرت نے بعد نماز فجر مصلی امامت پر ہی غائبانہ مرید فرمایا اور ساتھ ہی اپناجبہ و عمامہ عطا فرماکر ارشاد فرمایا : ہم جلد ہی بریلی آکر اس بچہ کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کر دیں گے ۔ “ سیدنا اعلی حضرت نے بری شریف آکر ساتویں دن ’ ’ محمد ‘ ‘ نام پر آپ کا عقیقہ کیا اور عرفی نام ” مصطفے رضا تجویز فرمایا ۔ ( تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ ،ص : ۵۰۳ ، مولانا غلام مجتبی رضوی ، مطبوعہ ، قادری کتاب گھر ) 

   خلافت: اس نوید و بشارت کے چھ ماہ بعد جمادی الآخر ۱۳۱۱ ھ میں حضرت نور العارفین بریلی شریف تشریف لاۓ ، آپ کو گود میں لے کر خلافت سے سرفراز فرمایا اور جدید و قدیم ۱۳ سلاسل کی اجازت عطا فرمائی ، ساتھ ہی ارشاد فرمایا یہ بچہ مادر زاد ولی ہے فیض کے دریا بہاۓ گا ۔ اس کے بعد اعلی حضرت نے بھی اپنے لخت جگر کو تمام سلاسل کی اجازت عطا فرمائی ، اس طرح خاندان برکات کے دو چشم و چراغ سے آپ نے بلاواسطہ فیض پایا ۔ ( فیضان مارہرہ بریلی مضمون : مولانا حنیف خان رضوی بریلوی ، ص : ۱۸۴ ) 

    تعلیم و تربیت : آپ نے قرآن کریم کی تعلیم اپنے والد ماجد اعلی حضرت عم محترم حضرت مولانا محمد رضاخان اور برادر مکرم حجۃ الاسلام مولانا حامد رضاخان علیہم الرحمہ سے پائی اور فارسی و ابتدائی عربی کی تعلیم بھی انہیں حضرات سے حاصل کی ۔ پھر جب مدرسہ اہل سنت قائم ہوا تو اپنے والد معظم سیدنا اعلی حضرت اور آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل حضرات سے بھی درس لیا : ( ۱ ) برادر اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا قادری ( ۲ ) استاذ الاساتذہ مولانا شاہ رحم الہی منگلوری ( ۳ ) شمس العلما مولانا ظہور الحسین فاروقی رامپوری ( ۴ ) شیخ العلما مولانا سید شاہ بشیر احمد علی گڑھی             فراغت : آپ کی فراغت ۱۳۲۸ ھ / ۱۹۱۰ ء میں بہ عمر ۱۸ سال ہوئی اور والد محترم کے دست مبارک سے دستار حاصل کی ، پھر ۱۲ / سال مجدد اعظم امام احمد رضا کی بارگاہ میں رہے اور جملہ علوم و فنون میں دستگاہ اور مہارت تامہ حاصل کی ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بطور خاص اعلی حضرت اپنی تصانیف کے ذریعہ رد فرق باطلہ کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور علم و عرفان کے دریا بہا رہے تھے ۔اس وقت آپ اپنے والد ماجد کی خدمت میں پورے طور پر شریک کار تھے ۔ ( فیضان مارہرہ و بریلی ، س : ۱۸۲ )
    درس و تدریس : آپ نے فراغت کے بعد ہی سے درس کا سلسلہ شروع فرما دیا تھا ، منظر اسلام میں آپ نے مسند تدریس کو رونق بخشی ، آپ کی تدریس کا زمانہ تقریبا چالیس سال ہے ، اس زمانہ میں آپ سے درس لینے والی وہ عظیم ہستیاں بھی ہیں جن کو ہندو پاک کے جلیل القدر علما و فضلا میں شمار کیا جاتا ہے جو بجاے خود اساطین ملت شمار کیے جاتے ہیں ۔ مثلا : شیر بیشہ اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد حشمت علی لکھنوی ثم پیلی بھیتی ، آپ نے ان کو بخاری شریف کا درس دیا ۔ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد صاحب کو قطبی اور مطول کا درس دیا ۔ ( جہان مفتی اعظم ہند ، ص : ۱۰۷ )
     اسی طرح آپ سے دوسرے علما و فقہا نے استفادہ کیا اور یہ سلسلہ ۱۳۹۵ ھ تک رہا ، چوں کہ آپ کو فراغت کے بعد سے سیدنا اعلی حضرت نے اپنی خدمت میں رکھ لیا تھا تو جہاں اعلی حضرت تصنیف و فتوی نویسی میں مشغول رہتے تھے وہیں حضور مفتی اعظم آپ کے شریک کار حوالوں کی تلاش و تنبع اور اعلی حضرت کے حکم سے تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے تھے ۔ اس بارہ سالہ مدت میں آپ نے بھی متعدد اہم علمی کتابیں تصنیف فرمائیں اور اعلی حضرت کے علم وفضل سے خوب خوب سیراب ہوئے ۔ پھر بھی آپ کے تلامذہ و مستفیدین کی بڑی تعداد ہے ۔
    فتوی نویسی : یوں تو حضور مفتی اعظم ہند ہر طرح کے علوم وفنون کا گہوارہ تھے ، تیں علوم میں آپ کو کامل دستگاہ حاصل تھی ، جس پر آپ کی تصانیف کے بیش بہا ذخیرے شاہد عدل ہیں ، لیکن ان تمام خوبیوں پر مستزاد سب سے عظیم صفت جو آپ کے اندر نمایاں رہی وہ ہے تفقہ فی الدین ۔ فتوی نویسی آپ کا طرہ امتیاز تھا ، یہی وہ نمایاں وصف تھا جس نے لوگوں کو مفتی اعظم کہنے پر مجبور کر دیا ۔ بلا شبہ آپ اس فن کے امام کہے جاسکتے ہیں ۔ آپ کی ذات مرجع علماء خواص رہی اور آج تک آپ کے فضل و شرف کا طوطی چہار دانگ عالم میں بول رہا ہے ، آپ کی اصابت رائے اور فکری گہرائی و گیرائی کی مثال ملنی مشکل ہے ، مختلف مسائل پر آپ کے فتاوی ہزاروں کی تعداد میں ہے ، جس کے کچھ نمونے فتاوی مفتی اعظم ( سات جلدیں کی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں ، جو یقینا علوم و معارف کے خزانے ہیں ۔ آپ کی فتوی نویسی کی ابتدا کے بارے میں حضرت مولانامحمود احمد قادری مظفر پوری رقم طراز ہیں : مولانا ظفر الدین بہاری و مولانا سید عبدالرشید عظیم آبادی دارالافتا ( بریلی میں کام کر رہے تھے ۔ ایک دن آپ دار الافتا میں پہنچے ، مولانا ظفر الدین فتوی لکھ رہے تھے ، مراجع کے لیے فتاوی رضویہ الماری سے نکالنے لگے ، حضرت مفتی اعظم ہند نے فرمایا ، نو عمری کا زمانہ تھا ، میں نے کہا ، فتاوی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ، مولانا نے فرمایا ، اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دو تو جانوں ، میں نے فورا لکھ دیا ، وہ رضاعت کا مسئلہ تھا ، یہ پہلا جواب تھا ، آپ کا یہ واقعہ ۱۳۲۸ ھ کا ہے ، اصلاح کے لیے اعلی حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا ، صحت جواب پر امام اہل سنت بہت خوش ہوۓ اور ’ ’ صحيح الجواب بعون الله العزيز الوهاب لکھ کر دستخط ثبت فرمایا اور ابوالبرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفے رضا کی مہر مولانا یقین الدین سے بنوا کر عطافرمائی ۔ ( تذکرہ علمائے اہل سنت ۔ مطبوعہ : کانپور ، بحوالہ : استقامت مفتی اعظم نمبر ، س : ۳۰۸ ٫ ۳۰۷ )
  آپ کے معاصرین آپ کی علمی برتری کے قائل رہے ، اختلاف کی صورت میں آپ کی جانب رجوع کیا جاتا ، آپ کی راے سند اور قول فیصل کا درجہ رکھتی تھی ، لاؤڈ اسپیکر پر جب نماز کے مسئلہ میں معاصر کے مابین اختلاف ہوا تو آپ نے یہ فتوی صادر فرمایا ، ’ ’ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہرگز ہرگز نہ ہو ( القول الاظہر ) ۔ حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بایں الفاظ تصدیق فرمائی ، ” هذا قول العالم المطاع وما علينا الا الاتباع ‘ ‘ کلام کی عظمت اس کے کہنے والے سے پہچانی جاتی ہے ، یہ کسی ایسے ویسے کا کلام ہوتا تو پھر اس پر کوئی کلام کرنے کی گنجائش رہتی ، مگر اس جملے کا قائل اپنے وقت کا عظیم محدث جلیل القدر اور بے شمار خوبیوں کا حامل شخص ہے ۔ ( سالنامہ ، تجلیات رضاس : ۱۷ اسن ۲۰۰۵ ، ۔ ناشر امام احمد رضا کیڈمی ) بایں ہمہ علم وفضل آپ کی ذات گوناگوں فضل و کمال کی حامل تھی ۔ جہاں آپ علم کے کوہ گراں تھے وہیں آپ میدان عمل کے شہسوار ، زہد و پارسائی کے تاجور اور تقوی شعاری و عفت مآبی کے عظیم پیکر تھے ۔ 
       تصانیف : حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے مصروفیات و مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصانیف و تالیف کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا ہے ، قلم میں خالق کائنات نے بے پناہ کشش و قوت ودیعت کر دی تھی ۔ آپ کا قلمی لہجہ اپنے والد گرامی اعلی حضرت امام احمد رضا سے ملتا جلتا معلوم ہوتا ہے ۔ ذیل میں چند کتابوں کے نام پیش کیے جاتے ہیں : ( ۱ ) فتاوی مفتی اعظم ( ۷ جلدیں ) ( ۲ ) اشد الناس على عابد الخناس ( ۳ ) الكاوى في لعاوي والغاوي ( ٤ ) كشف ضلال دیو بند ( 5 ) نور الفرقان بين جنداله واحزاب الشيطان ( 6 ) وقعات السنان في حلق المسماة بسط البنان ( ۷ ) الرمح الدياني على رأس الوسواس الشيطاني ( 8 ) وقايه اهل سنت المكر ديو بند والفتنه ( ۹ ) الهي ضرب بر اهل الحرب ( ۱۰ ) ادخال السنان الى حنك الحلق سبط النبان ( ۱۱ ) سيف القهار على العبد الكفار ( ۱۲ ) نفي العار من معائب المولوي عبد الغفار ( ۱۳ ) مقتل كذب و کید ( ١٤ ) الموت الاحمر على كل نحس اكفر ( 15 ) حصص ) ( 16 ) الطاري الداري لهفوات عبد الباری ( ۱۷ ) طرق الهدى والارشاد والى احكام الامارة والجهاد ( ۱۸ ) سامان بخشش عرف گلستان نوری ( ۱۹ ) الحجة الواهره بوجوب الحجة الحاضرة ( ٢٠ ) عمدة البيان ( قلمی )
    عبادت و ریاضت : سفر و حضر کسی بھی موقع پر آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی ، ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ، سفر میں نماز کا اہتمام نہایت مشکل ہوتا ہے ، لیکن حضرت پوری حیات مبارکہ اس پر عامل رہے ۔ اس سلسلہ میں چشم دید واقعات لوگ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی ادئیگی اور نماز کے اہتمام کے لیے ٹرین کے چھوٹنے کی بھی پرواہ نہیں فرماتے تھے ، خود نماز اداکرتے اور ساتھیوں کو بھی سخت تاکید فرماتے ۔ 
   اخلاق وکردار : جھکی ہے گردنیں در پر تمھارے تاج والوں کی میرے آقا میرے مولی وہ تاج اولیا تم ہو حضور مفتی عظم قدس سرہ اس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے زمانے کو تہذیب و اخلاق اور اخوت و مساوات اسلامیہ کا درس دیا جن کا در ہر منگتا کے لیے کھلا رہتا ہے ۔ آپ میں خوش اخلاقی ، شفقت و رافت ، تواضع وانکساری اور محبت و اخلاص بدرجہ اتم پاۓ جاتے تھے ۔ آپ نے بھی کسی غریب کی دعوت کو رد نہیں فرمایا ۔امیر و رئیس اور بڑے لوگوں سے دور بھاگتے تھے اور نہایت ہی پاکیزہ اور بلند کردار کے مالک تھے ۔ آپ کی حیات طیبہ میں ایک بار اکبر علی خان صاحب جو یوپی کے گورنر تھے آپ کی زیارت کرنا چاہتے تھے مگر حضرت ان کے آنے سے کچھ دیر قبل پرانا شہر بریلی میں ایک بیمار دم توڑتے ہوۓ غریب سنی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ۔ ( تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ ، ص : ۵۰۸ )
     وصال : شب پنج شنبه ۱۴ ٫ محرم الحرام ۱۴۰۲ ھ / ۱۲ / نومبر ۱۹۸۱ ء 1 بج کر چالیس منٹ پر یہ مہر درخشاں افق مرگ کی پنہائیوں میں گم ہو گیا ، دوسرے روز بعد نماز جمعه ٫ ۳ بج کر ٫ ۲۰ منٹ پر اسلامیہ کالج کے وسیع گراؤنڈ میں نماز جنازہ ادا گئی ۔ جنازہ میں اتناکثیر ازدحام تھا کہ چشمان فلک نے کسی کے جنازہ میں کبھی اتنا انبوہ کثیر شاید ہی دیکھا ہو ، آپ کو آپ کے والد ماجد کے پہلو میں بریلی میں سپردخاک کیا گیا ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے