مسلمانوں کے زوال کے چند اسباب
پہلی وجہ مسلمانوں کی تعلیم سے بے رخی اور دوری ہے:
تعلیم سے مراد علم دین اور علم دنیا دونوں ہی ہیں دنیاوی تعلیم حاصل کر کے اچھی نوکری تو پا سکتا ہے ، بینک بیلنس جمع کر سکتا ہے ، اچھام مکان بناسکتا ہے ، عیش و آرام کے سامان مہیا کر سکتا ہے ، جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی بول سکتا ہے کہ اس نے کافی ترقی کی ہے ، یہ شخص کامیاب و کامران ہے ، لیکن اس کی کامیابی صرف مادی ہے ۔ علم دین کے بغیر وہ اخلاقی تعلیم اور تربیت سے محروم ہے ۔ جس کی وجہ سے زندگی کے تنازعات اور اہم فیصلوں میں اسے رہنمائی حاصل نہیں ہوتی ۔ جتنے بھی جرائم آج ہورہے ہیں ، زیادہ تر اس میں غیر دینی تدریسی اداروں کے لوگ ہی ملوث پائے جاتے ہیں ، کیوں کہ اسکولوں اور کالجوں میں اخلاقی تعلیم فراہم ہی نہیں کی جاتی ہے ، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ علم دین و دنیا دونوں ہی حاصل کریں ۔
مسلمانوں کی حکومت ایشیا ، افریقہ اور یورپ براعظم کے بعض علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی تو یورپ کے لوگ علم کے تحصیل کے لیے مصر ، بغداد اور اسپین کے Universities میں پڑھنے کے لیے آتے تھے ۔ وہ لوگ عربی زبان میں لکھی ہوئی سائنس علم فلکیات ، طب ، فلسفہ ، ریاضیات اور دیگر کتابوں کا غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کر کے استفادہ حاصل کرتے تھے ۔ دور حاضر میں وہی لوگ ہم سے آگے نکل گئے اور ہم تعلیم کے میدان میں ان سے پیچھے رہ گئے۔
دوسرا سبب علمی تعصب ہے :
بعض لوگ دنیاوی تعلیم سے biased اور prejudiced ہوتے ہیں وہ دنیاوی تعلیم کو اصل تعلیم ہی نہیں سمجھتے اسے حقیر جانتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اصل علم تو دین کا ہی علم ہے ، کبھی تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ دنیا بنانا ہے تو Science پڑھو اورآخرت بنانا ہے تو دین پڑھو ۔ ایک صاحب تو اسکول اور کالج کے سرٹیفکیٹ کو کاغذ کی رسید کہتے ہیں ۔ بعض لوگ لڑکیوں کے اعلی تعلیم کے حصول کے خلاف ہیں ، دنیاوی تعلیم کے متعلق لوگوں کا یہ رویہ ٹھیک نہیں ھے ۔ علم تو علم ہے ۔ علم کی اپنی الگ الگ نوعیت ہے ۔ ہمیں ہر نفع بخش علم کو حاصل کرنا چاہیے ۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بارے میں اس طرح کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ ایک طرف اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھاۓ ، تو دوسری طرف علوم ہدایت بھی بتاۓ ، ذوالقرنین علیہ السلام کاواقعہ پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ بادشاہ کو اس زمانے میں آج کی اصطلاح میں انجینئرنگ کا علم بھی حاصل تھا ۔ جس کی بدولت اس بادشاہ نے قوم کو یاجوج ماجوج کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے ایک دیوار بنائی تھی ۔ ( مزید مطالعہ سورہ کہف آیت ۔ 83 تا 98 )
تیسرا سبب ہماری قوم کے بچوں اور بچیوں کا science سے بے رغبتی اور دوری ہے:
آج بھی دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بہت کچھ لڑکے اور لڑ کیاں science لے کر پڑھتے ہیں ۔
بہت سے ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سائنس کا شعبہ ہی نہیں ہے ۔واضح ہو کہ scientific حقائق کا جتنا قرآن پاک میں بیان ہوا ہے ، اتنا تو آج کے تحریف شدہ الحامی کتابیں توریت ، زبور اور انجیل میں بھی ذکر نہیں ہوا ۔ سورہ آل عمران آیت نمبر ۔ 191 میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو زمین اور آسمانوں کی تخلیق پرغور کرنے کی دعوت دے رہا ، کائنات کی ترتیب وار تخلیق ، سورج اور چاند کی گردشیں ، ہواوں ، پہاڑوں ، بادلوں ، بجلی کا ذکر ماں کے پیٹ میں بچے کی stagewise پیدائش کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے ۔ کیا یہ تمام باتیں مسلمانوں کو science پڑھنےکی ترغیب نہیں دے رہی ہیں ؟
آج دنیا میں وہی ممالک اور اقوام آگے ہیں ، جہاں کے لوگ science پڑھنے میں آگے ہیں ۔ پچھلے کئی صدیوں سے جو بھی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں ، ان سب کا سہرا غیر مسلموں کے سر رہا ہے ۔ مسلمانوں کا خاص کر برصغیر کے مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں صبح اٹھنے لے کر رات کو سونے تک Tongue cleaner اور مچھر بھگانے کے لیے Goodnight تک جتنے بھی سامان ہم اپنی زندگی میں استعمال کرتے ہیں ، سب کا سب یہودی ، نصرانی اور غیر مسلموں کا ایجاد کیا ہوا ہے ۔ ( الاماشاء اللہ ) ۔
چوتھا سبب قوم مسلم کی فرسودہ سوچ اورمنفی mindset ہے :
یہ قوم اپنے پچھرے پن اور مغلوبیت کی وجہ سے اپنے اندر کی کمزوریوں کو ڈھونڈنے کے بجاۓ ، دوسروں کو قصوروار ٹھرانے میں لگی ہوئی ہے ۔ جب دیکھے تو اسرائیل ، امریکہ اور دیگر یوروپین ملکوں کو ہی ذمہ دار ٹھراتی ہے ، ہمارے ملک بھارت میں بھاجپا اور آر ایس ایس کاروناروتی ہے ۔ اسے اپنی خامیاں ، کو تاہیاں ، خرابیاں نظر نہیں آتی قوم مسلم ہر وقت یہ سوچتی ہے کہ امریکہ اور یہودی ، بھارت میں بھاجپا ، سنگھ اور دیگر اسلام دشمن عناصر اس کے خلاف سازش کررہے ہیں ، یہودی اور نصرانی مسلمانوں کے مستقل دشمن ہیں ، لیکن ہم مسلمان اس غفلت میں ہیں کہ ہم بہترین امت ہیں ، ہم سے کچھ مواخذاہ ہی نہیں کیا جاۓ گا ؟
یہودی بھی اسی طرح سوچتے تھے کہ ہم لوگ تو اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں ، ان کی اسی نا سمجھی پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو بتاؤ ! اللہ تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے ؟ ہم بھی یہی سوچتے ہیں کہ ہم تو خیر امت ہیں بھلے ہی ہم معروف کام کریں یا نہیں اور نہ ہی منکر سے خود کواور دوسروں کو روکیں ، جس طرح اللہ تعالی نے یہودیوں کو ان کے غیر اخلاقی اعمال کے وجہ سے Nebuchadnezzar کوان پر مسلط کر دیا جس نے ہیکل سلیمانی کو برباد کر دیا اور بعد میں Roman Titus نے AD70 میں دوسری بار ہیکل سلیمانی کو توڑ پھوڑ دیا ٹھیک اسی طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں کے بداعمالیوں کے وجہ سے قدیم دور خلافت عباسیہ میں مسلمانوں پر ہلاکوخان اور جدید دور میں America کو ہم پر مسلط کر دیا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تنزلی کے صحیح اسباب کا پتہ لگائیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں ۔
اس چکر سے نکلیے کی فلاں ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے اور اگر وہ کر بھی رہا ہے تو ہم کیوں نہیں ان کے خلاف سازش کر پاتے ہیں آخر Americans اور دیگر لوگوں کی طرح ہم بھی ایک سر اورٹانگوں والے انسان ہیں ؟
پانچواں سبب اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر غیروں کا قبضہ ہے :
سورہ بقرہ آیت نمبر ۔ 29 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین میں جو کچھ ہے سب پیدا کیا ۔ اس سے مراد مطعومات مشروبات اور ملبوسات تو ہے ہی اس میں ان چیزوں کو بھی شامل کر لیجیے ، جو زمین کے اندر مدفون ہیں ، اس کے علاوہ wind اور water بھی ہیں جس سے wind energy hydroelectricity پیدا ہوتی ہے ۔ ایک لفظ میں کہیں تو اللہ کی نعمتیں ، قدرتی ذرائع اور وسائل پر مسلمانوں کا نہیں ، بلکہ غیر مسلموں کا قبضہ اور کنٹرول ہے ، خلیج ممالک میں تیل کے کنویں تو ہیں ، لیکن تیل نکالنے کی مشینیں مغربی ممالک کی ایجاد کردہ ہیں ۔ یہودی اور نصرانی ہر وقت اللہ کی نعمتوں کا دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، ابھی امریکہ اپنے ہی ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کا متبادل shell gas دریافت کر چکا ہے ، Geographical exploration کے سبب جب امریکہ اور افریقہ ( Dark continent ) دریافت ہوا اور وہاں کو قدرتی خزانوں کا پتہ چلا تو Dutch Portuguese French اور British وہاں پہنچ گئے اور وہاں اپنی colony قائم کی اور ان قدرتی خزانوں کے مالک بن بیٹھے اور خوب فائدہ حاصل کیا ۔ غفلت کے سبب مسلمان ان تمام چیزوں سے محروم رہ گئے ۔
مسلمانوں کا مسلمان ہونے پر شرم !
ایکٹر نصیر الدین شاہ نے اسلام سے متعلق جو بیان دیا ہے وہ بےحد شرم ناک اور قابل مذمت ہے ، جرائم کے لیے اللہ تعالیٰ جن سزاؤں کا حکم دیا ہے اس کی تنقید کرنے سے وہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے ( اس کا فیصلہ امارت شرعیہ یا ہمارے قابل قدر مفتیان کرام وفقہا عظام کریں گے ) ۔
نصیر الدین شاہ کو چور کے ہاتھ کاٹنے اور بد کاری کرنے والوں کوسنگسار کرنے کی سزاؤں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مومن کی شادی صرف مومن سے ہی ہو سکتی ہے ۔
اسی طرح سلمان خان اور اس کا پوراخاندان ، گنیش کی عبادت کر تا ہے ۔ یہ تو مبین شرک اور کفر ہے ، علما کے وفد کو ان لوگوں سے مل کر ان کے عقائد کی خرابیوں کو بتانا چاہیے تاکہ وہ توبہ کر سکیں اور اسلام پر مکمل قائم رہ سکیں۔اللہ تعالی نے جس طرح سے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تعلیمات سے واقف ہیں ، ہمیں بھی چاہئے کہ دوسرے لوگوں کو جو دین کی تعلیمات سے ٹھیک ٹھیک واقف نہیں ہیں ، انہیں دین کی دعوت دیں تاکہ وہ گمراہ کن باتوں سے اجتناب کریں مسلمانوں میں ایک خطرناک بیماری پیدا ہو چکی ہے کہ ہماری اکثریت مذہب کو انفرادی واجتماعی اصلاح کے بجاے مالی و ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کر رہی ہے اور ان لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے ۔ اسلام کا اولین مقصد ہر ایک کی اصلاح ہے ، لیکن اسلام کے اس اصول پر شاید ہی کوئی قائم نظر آتا ہے ۔ وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے خراب سمجھتا ہو ۔ جھوٹ کی کثرت سے گھر ، بازار ، دفاتر ، مساجد اور مدارس اٹے پڑے ہیں ۔ حیرت کی انتہا اس بات کی ہے کہ مسلمان تاجر اپنی چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا استعمال کرتا اور سہارالیتا ہے ۔ شہد ، کھجور کلونجی اور دیگر اشیا بیچتے وقت اسے مذہبی شعار بتایا جاتا ہے ۔ اسکولوں کالجوں ، دکانوں ، ہسپتالوں کے نام مکہ ، مدینہ ، اسلامی واقعات اور اسلامی شخصیات کے نام پر رکھے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کا فائدہ اٹھایا جا سکے ۔
اہم نصیحت !
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے انفرادی و اجتماعی روابط ضروری ہیں ، وفود کے ذریعے ملاقاتیں بلا تکلف گفتگوئیں ، سمپوزیم سمینار ، تقاریر وخطابات ، کار نمیٹنگیں وغیرہ اہتمام کرنا ہو گا ۔ Inter Faith Dialouge یعنی مختلف مذہبی لیڈروں اور قائدین کے درمیان مذاکرات بھی اس سلسلے میں مفید اور موثر ثابت ہو سکتے ہیں مستشرقین اور آر بی ساجیوں نے ماضی میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر کئی حملے کیے تو ہمارے علماے کرام نے عیسائی پادریوں اور ہندو رہنماؤں سے مناظرے کیے اور شکست دی ، لیکن اس قسم کے مناظروں سے اسلام کی عظمت ورفعت اور مسلمانوں میں اعتماد اور حوصلہ تو پیدا ہوتا ہے لیکن فریق ثانی کو اسلام کا قائل نہیں کرایا جاسکتا ، کیوں کہ مناظرے میں ایک فریق ہار تا اور دوسرا جیتا ہے جب کہ دعوت کا کام دلوں اور دماغوں کو متاثر کرنا اور مدعو کے دل میں داعی سے انس پیدا کرنااور اس کے دل و دماغ میں سوالات پیدا کر کے اسے سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دینا ہے۔اس لیے آج کے دور میں مناظرہ Debate کے بجاے مکالمہ Dialogue کی ضرورت ہے ۔ مکالمے و مذاکرے میں فریق کے دلائل کوسننا ، اس کے اچھے نکات کی تعریف کرنا اور بعض اختلافی باتوں پر دلائل کے ساتھ گفتگوکرنا ضروری ہے ۔ مکالمے میں اپنی بات کو پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کرنا ایک فن ہے اور اپنی بات کو موثر انداز میں ترسیل کرنا Effective Communication دور جدید کا ایک آرٹ ہے ۔ ہماری دعوتی منصوبہ بندی میں اس قسم کے ماہرین کو تیار کرنابھی ضروری ہے ۔ بیعت عقبہ ثانی کے بعد رسول ﷺ نے مدینہ کے سرداروں کی فرمائش پر کہ ان کے پاس ایسا معلم بھیجیں جو انہیں اسلام کی تعلیم دے سکے ، تو آپ ﷺ نے سیدنا مصعب بن عمیر کو بھیجا جو بہت ہی مخلص اور ماہر نفسیات صحابی تھے ، لوگوں کو اسلام پر آمادہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ان میں موجود تھیں سیرت رسول ﷺ میں حلف الفضول “ کا ذکر آتا ہے جو جاہلیت کے دور میں طاقت ور ظالموں سے انصاف کے حصول کے لیے قابل ذکر مشتر کہ ادارہ تھا اور خود نبی اکرم ﷺ نے خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اگر اس قسم کی تنظیم پھر بنے تو اس میں شامل ہونا آپ ﷺ پسند فرمائیں گے ۔
آخر میں !
آسٹریلیائی کرکٹ بورڈ کا یہ شرط رکھنا کہ اسٹریلیا کے مردوں کی کرکٹ ٹیم افغان مردکرکٹ ٹیم کے ساتھ کرکٹ اس شرط پر کھیلے گی ہے جب افغانستان کی نئی حکومت وہاں کی خواتین کرکٹ ٹیم کو کھیلنے کی اجازت دیں ، اس طرح کا شرط ایک ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے برابر ہے ، جوقابل مذمت ہے ۔ اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم نے یہ شرط رکھی ہوتی کہ 20tکرکٹ میں چوکے اور چھکے پر ناچنے والی لڑ کیاں نقاب میں ہوگی تو آج عالمی پیمانے پر بڑاہنگامہ کھڑا ہوجاتا ، تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مسلمانوں کے پیچھے پڑ جا تا کہ اسلام ایک دقیانوسی مذہب ہے اور مسلمان ایک جاہل قوم ۔اس لیے کوئی ہنگامہ نہیں ہے کہ اسٹریلیا مسلمانوں کا ملک نہیں ہے ۔ دور حاضر میں ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اور ان کے حکمرانوں کے نزدیک اسلام اور مسلمانوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ، وہ ہمیں صرف استعمال کی چیز سمجھتے ہیں ۔