مرد مومن کی ہر ادا انقلاب آفریں ہوتی ہے
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ شعر میں جس مرد مومن کی بات کی ہے وہ اسلامی قالب میں ڈھالا ہوا ایک ایسا انسان ہے جس کی زندگی خدا کی ابدی تعلیمات اور اس کے حبیب مکرم کے ذریعہ کھینچے گئے ان تابندہ خطوط پر گزرتی ہے ، جس پر چل کر انسان دارین کی سعادتوں کو اپنی قسمت کی سونات بنالیتا ہے ، وہ اپنی شخصیت کے ظاہر و باطن کو پاکدامنی ، عفت مانی ، خوف و خشیت تسلیم و رضا ، صداقت عزیمت بعشق رسالت اور رضاے الہی جیسی اسلامی صفات سے اس طرح مزین کر لیتا ہے کہ اس کا سراپا ایمانی غیرت کا عکس بن جاتا ہے جس کا نتیجہ حیرت انگیز اثرات کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے ، جہاں اس مرد مومن کی ہر ادا انقلاب آفریں ہو جاتی ہے اور اس کی زندگی کے ہر پہلو میں اثراندازی کے ایسے جوہر کھلتے ہیں کہ فلسفہ و منطق اور مادیت آشنا فکر میں اس کی توضیح تاویل کرنے سے در ماندہ اور عاجز نظر آتی ہیں ۔
اقبال نے مرد مومن کی جس ” نگاہ “ کو اپنے شعری تخیل مرکزی حصہ بنایا ہے در اصل وہ ایمانی قوت کی اسی اثر اندازی کا استعارہ ہے جس کا ظہور مومن کے گفتار و کردار ، جلوت و خلوت ، نشست برخاست ، تکلم و خاموشی غرض اس کی زندگی کی ہر کیفیت سے ہونے ہے جس کے اندر ایسی مقناطیسی قوت ہوتی ہے کہ جو اس کے دائرہ اثر آتا ہے وہ اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے اور پھر جن کے مقدر اندھیرے ہوتے ہیں ان کی قسمت کے طلاق نہیں اجالوں سے دیکھنے لگتے ہیں ۔
مرد مومن کی اس پاکیزہ نگاہ کے تاثیری جلووں کا مشاہدہ ہمیں اپنے اسلاف کی حیات میں دیکھنے کو ملتا ہے جن کی نگاہ کیمیا اثر جس طرف اٹھی ہزاروں آشفتہ مقدروں کی تقدیر بدل کر رکھ دی ۔ ماضی قریب کی عظیم علمی اور روحانی شخصیت صدر مجلس علمائے اہل سنت ، ابدال وقت حافظ بخاری حضرت خواجہ سید شاہ عبد الصمد چشتی پھپھوندوی رحمۃاللہ علیہ کی حیات سے جڑا مندرجہ ذیل حادثہ ” نگاہ مرد مومن “ کی بہترین مثال ہےچناں چہ : ملفوظ مصابیح القلوب کے مصنف علامہ ظہیر السجاد لکھتے ہیں کہ :
ضلع اٹاوہ میں ملاعظیم صاحب تھے جن کا میلان غیر مقلدیت کی طرف زیادہ تھا اور اٹادہ میں غیر مقلدوں کے امام و مقتدا ، جنہیں لوگ ” مولوی نابینا کہتے تھے ، ان سے حد درجہ متاثر اور عقیدت کی حد تک لگاؤرکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت حافظ بخاری خواجہ عبد الصمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا اٹاوہ میں جلسہ ہوا تو کسی نے ملا جی سے جلسے میں شرکت کی درخواست کی ، پہلے تو ملا جی نے انکار کیا اور عذر یہ پیش کیا کہ تم لوگ جلسے میں قیام کرو گے جب کہ یہ شرک ہے اور اگر میں کھڑا نہ ہوا توان کے متوسلین میرے ساتھ بد سلوکی کر سکتے ہیں ، مگر جو صاحب شرکت پر مصر تھے انھوں نے ترکیب سوجھائی کہ دوران تقریری آپ پنکھا لے کر کھڑے رہیں لہذا قیام تعظیمی کی نوبت ہی نہیں آۓ گی اور یوں آپ شرک سے بچ جائیں گے ۔ خیر ! ملا جی نے شرکت کی اور حضرت حافظ بخاری کے پاس پنکھا لے کر کھڑے ہو گئے ، حضرت نے تقریر فرمائی اجلاس ختم ہوا اور ختم ہوتے ہیں اہل جلسہ نے یہ منظر حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا کہ ضلع اٹاوہ کے مشہور غیر مقلد ملا عظیم کا سر ہے اور حضرت حافظ بخاری قدس سرہ کے قدم ہیں۔ مرد مومن کی نگاہ نے اپنا کام کر دیا ، دلوں کا زنگ دور ہوا اور غیر مقلدیت سے تائب ہوکر عاشقوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ۔
تجربات اور مشاہدات یہ کہتے ہیں کہ بد عقیدگی جب کسی کے میں گھر کر جائے تو افہام وتفہیم کے راستے بہت تنگ ہو جاتے ہیں ، وقت اسلامی لٹریچر کے مضبوط حوالے بھی دل کی کدورت مٹانے تمر وزدہ طبیعت کو جادۂ حق پرلانے میں بھی نا کام ہو جاتے ہیں مگر سخت ترین مراحل نگاه مرد مومن کی روحانی تاثیر سے پلک جھپکتے طے ہوگئے ، گمراہیت ، کالی گھتا کی طرح پٹ گئی ، رشد و ہدایت کے پھول کھلے اور قدرت کے قلم نے ملاجی کی تقدیر میں شر کی جگہ خیر رقم کر دیا ۔ ایمان اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ جس قدر انسان کے رگ وپے میں سرایت کر تا چلا جاتا ہے اس کی نگاہ کی یہ غیر مرئی تاثیر اتنی ہی بڑھ جاتی ہے ، پھر خواہ نگاہ اٹھے یا پکوں کے سیاہ پردے کی اوٹ میں جھک جائے بہر صورت فکر و عمل کی آوارگی پر اس کی ضرب تنی کاری ہوتی ہے کہ جس کی دھنک لوح محفوظ تک سنائی دیتی ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” شفاء الصدور میں ملک شام کے ایک پاک دامن نوجوان کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ مرد مومن ‘ ‘ تھا ۔ کافر بادشاہ کی قید میں پڑے اس نوجوان کے ایمان ویقین کا امتحان ایک جواں سال دوشیزہ کے ذریعہ لیا گیا ، جس کے حسن کی حشر سامانی کے آگے رنگ و شباب کے نہ جانے کتنے پیکر دم توڑ چکے تھے ۔ رات کی تنہائی میں نوجوان کے حجرے میں یہ دوشیزہ داخل ہوئی تاکہ نوجوان کے عزم ولیقین ایان کے بھرم کو توڑ کر اپنے دام حسن میں لے آئے اور اسے کفر کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دے ، نوجوان نے اپنے کمرے میں نسوانی وجود کا احساس کیا تو نگاہ جھکالی لڑکی کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری در بانگر نوجوان کی پاکیزہ گاہ جنگی کی جھکی رہی اور مرد مومن کی یہ بھی نگاہ ہی اس کافرادا دوشیز و کی حسن تقدیر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ آخر نگاہ نے اثر کیا اور وہ خود بول اٹھی کہ مجھے بھی اس دین میں داخل کر لو جس نے تمھاری نگاہوں میں فرشتوں کی حیا پیدا کر دی ہے ۔
( بحوالہ لالہ زار ) ۔
اس واقعہ کو سامنے رکھ کر جب علامہ اقبال کے شعر کو زبان سے دہراتے ہیں تو لطف کی کیفیت دو آتشہ ہو جاتی ہے اور دل خود گواہی دیتا ہے
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں !
اب تو صرف ہم ہیں ، ہمارے دلائل ہیں ، تقریریں ہیں ، تحریریں ہیں ، چیشتی اور قادری نسبتوں کی سند میں ہیں ، اگر نہیں ہے تو بس ہی ” نگاہ “ جس کی کرشمہ سازی سے ہی کام بنتے آرہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مرد مومن بناۓ ۔