Dynamic Share Icon

مرتدین سے جہاد کرنے والے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں چند آدمی اور وفات اقدس کے بعد بہت لوگ مرتد ہونے والے تھے جن سے اسلام کی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہونے والا تھا۔ لیکن قرآن مجید نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دی اور یہ پیش گوئی فرمادی کہ اس بھیانک اور خطرناک وقت پر اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو پیدا فرمائے گا جو اسلام کی محافظت کرے گی اور وہ ایسی چھ صفتوں کی جامع ہو گی جو تمام دنیوی و اخروی فضائل و کمالات کا سرچشمہ ہیں اور یہی چھ صفات ان محافظین اسلام کی علامات اور ان کی پہچان کا نشان ہوں گی اور وہ چھ صفات یہ ہیں: (۱) وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے (۲) وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے (۳) وہ مومنین پر بہت مہربان ہوں گے (۴) وہ کافروں کے لئے بہتسخت ہوں گے (۵) وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے (۶) وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خائف نہیں ہوں گے۔

صاحب تفسیر جمل نے کشاف کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ عرب کے گیارہ قبیلے اسلام قبول کر لینے کے بعد آگے پیچھے اسلام سے منحرف ہو کر مرتد ہو گئے ۔ تین قبائل تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں اور سات قبیلے حضرت امیر المومنین ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور ایک قبیلہ حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے بعد ۔ مگر یہ گیارہ قبائل اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود اسلام کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ بلکہ مجاہدین اسلام کے سرفروشانہ جہادوں کی بدولت یہ سب مرتدین تہس نہس ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گئے اور پرچم اسلام برابر بلند سے بلند تر ہوتا ہی چلا گیا۔ اور قرآن مجید کا وعدہ اور غیب کی خبر بالکل سچ اور صحیح ثابت ہو کر رہی ۔

زمانہ رسالت کے تین مرتدین (۱) قبیلہ بنی مدلج جس کا رئیس "اسود عنسی” تھا جو "ذو الحمار” کے لقب سے مشہور تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور یمن کے سرداروں کو فرمان بھیجا کہ مرتدین سے جہاد کریں۔
چنانچہ فیروز دیلمی کے ہاتھ سے اسود عنسی قتل ہوا اور اس کی جماعت بکھر گئی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو بستر علالت پر یہ خوش خبری سنائی گئی کہ اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ اس کے دوسرے دن ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال ہو گیا۔ (۲) قبیلہ بنو حنیفہ جس کا سردار مسیلمہ کذاب تھا۔ جس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاد فرمایا اور لڑائی کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مسیلمۃ الکذاب مقتول ہوا اور اس کا گروہ کچھ قتل ہو گیا اور کچھ دوبارہ دامن اسلام میں آ گئے۔

(۳) قبیلہ بنو اسد، جس کا امیر طلحہ بن خویلد تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقابلہ کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا اور جنگ کے بعد طلحہ بن خویلد شکست کھا کر ملک شام بھاگ گیا مگر پھر دوبارہ اسلام قبول کر لیا اور آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہا اور اس کی فوج کچھ کٹ گئی کچھ تائب ہو کر پھر دوبارہ مسلمان ہو گئے۔

خلافت صدیق اکبر کے سات مرتد قبائل

(۱) قبیلہ فزارہ جس کا سردار عیینہ بن حصن فزاری تھا ۔ (۲) قبیلہ غطفان جس کا سردار قرہ بن سلمہ قشیری تھا (۳) قبیلہ بنو سلیم جس کا سرغنہ فجاءة بن یالیل تھا۔ (۴) قبیلہ بنی یربوع جس کا سر براہ مالک بن بریدہ تھا (۵) قبیلہ بنو تمیم جن کی امیر سجاح بنت منذر ایک عورت تھی جس نے مسیلمۃ الکذاب سے شادی کر لی تھی (۶) قبیلہ کندہ جو اشعث بن قیس کے پیروکار تھے (۷) قبیلہ بنو بکر جو خطمی بن یزید کے تابعدار تھے۔ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مرتد ہونے والے ساتوں قبیلوں سے مہینوں تک بڑی خونریز جنگ فرمائی۔ چنانچہ کچھ ان میں سے مقتول ہو گئے اور کچھ توبہ کر کے پھر دامن اسلام میں آگئے ۔

دور فاروقی کا مرتد قبیلہ

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں صرف ایک ہی قبیلہ مرتد ہوا اور یہ قبیلہ غسان تھا۔ جس کی سرداری جبلہ بن ایہم کر رہا تھا۔ مگر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پرچم کے نیچے صحابہ کرام نے جہاد کر کے اس گروہ کا قلع قمع کر دیا اور پھر اس کے بعد کوئی قبیلہ بھی مرتد ہونے کے لئے سر نہیں اٹھا سکا۔

اس طرح مرتد ہونے والے ان گیارہ قبیلوں کا سارا فتنہ و فساد مجاہدین اسلام کے جہادوں کی بدولت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ تفسير جمل على الجلالين، ج ۲، ص ٢٣۹ ، پ ٦ ، المائدة : ٥٤)

ان مرتدین سے لڑنے والے اور ان شریروں کا قلع قمع کرنے والے صحابہ کرام تھے۔ جن کے بارے میں برسوں پہلے قرآن مجید نے غیب کی خبر دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (پ ٦ المائده: ٥٤)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور الل وسعت والا علم والا ہے۔

درس ہدایت: ان آیات سے حسب ذیل انوار ہدایت کی تجلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ مرتدین کے فتنوں اور شورشوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ مرتدوں کے مقابلہ کے لئے ہر دور میں ایک ایسی جماعت کو پیدا فرمادے گا جو تمام مرتدین کی فتنہ پردازیوں کو ختم کر کے اسلام کا بول بالا کرتے رہے گی جن کی چھ نشانیاں ہوں گی۔

ان آیات بینات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنہوں نے مرتدین کے گیارہ قبائل کی شورشوں کو ختم کر کے پرچم اسلام کو بلند سے بلند تر کر دیا۔ یہ صحابہ کرام مندرجہ ذیل چھ عظیم صفات کے شرف سے سرفراز تھے۔ یعنی (۱) صحابہ کرام اللہ کے محبوب ہیں (۲) وہ کافروں کے حق میں بہت سخت ہیں (۳) وہ اللہ تعالیٰ کے محب ہیں (۴) وہ مسلمانوں کے لئے رحم دل ہیں (۵) وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں (۶) وہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کا اندیشہ و خوف نہیں رکھتے ۔

پھر آیت کے آخر میں خداوند قدوس نے ان صحابہ کرام کے مراتب و درجات کی عظمت و سر بلندی پر اپنے فضل و انعام کی مہر ثبت فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بڑی وسعت والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کو خوب معلوم
ہے کہ کون اس کے فضل کا حق دار ہے۔
اللہ اکبر ! سبحان اللہ! کیا کہنا ہے صحابہ کرام کی عظمتوں کی بلندی کا۔ رسول نے صحابہ کرام کے فضل و کمال کا اعلان فرمایا اور خداوند قدوس نے ان لوگوں کے جامع الکمالات ہونے کا قرآن مجید میں خطبہ پڑھا۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے