قسط در قسط میں عنوان بنا لیتا ہوں

Dynamic Share Icon

قسط در قسط میں عنوان بنا لیتا ہوں
خواب بکھرے ہوں تو دیوان بنا لیتا ہوں

رقص کرتا ہے مرے لب پہ سوالوں کا ہجوم
میں خیالات کو طوفان بنا لیتا ہوں

کبھی سائے میں چھپاتا ہوں تمازت اپنی
کبھی سورج کو بھی مہمان بنا لیتا ہوں

ہجر کی رات میں جب چاند بھی مدھم ٹھہرے
میں اندھیروں کو چراغان بنا لیتا ہوں

دل کی دہلیز پہ بکھری ہوئی یادوں کی چمک
میں سراپا ہی پشیمان بنا لیتا ہوں

آج پھر وقت نے زخموں کو نیا رنگ دیا
آج پھر درد کو عنوان بنا لیتا ہوں

راکھ ہونے کو بھی تیار ہیں خوابوں کے دیے
پھر بھی میں خاک کو ارمان بنا لیتا ہوں

مرے خوابوں کی زمیں ہوگئی ویران مگر
چشتی پھر بھی میں گلستان بنا لیتا ہوں

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے