Dynamic Share Icon
فرعون کو سمندر میں غرق ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ بنی اسرائیل محفوظ طور پر پار ہو رہے ہیں۔ اس میں اللہ کے عذاب کی شدت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ آپ کے مواد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوگی

فرعون کا ایمان مقبول نہیں ہوا

فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ دریا میں غرق ہونے لگا تو ڈوبتے وقت تین مرتبہ اس نے اپنے ایمان کا اعلان کیا مگر اس کا ایمان مقبول نہیں ہوا اور وہ کفر ہی کی حالت میں مرا۔ لہذا بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ فرعون مومن ہو کر مرا، ان کا قول قابل اعتبار نہیں ہے۔ (تفسیر صاوی، ج ۳، ص ۸۹۱ ، پ ۱۱ ، یونس: ۹۰)

ڈوبتے وقت ایک مرتبہ فرعون نے اٰمنت کہا یعنی میں ایمان لایا۔ دوسری مرتبہ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهٖ بَنُوا اسْرَاءِیل کہا یعنی اس اللہ کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے دوسرا کوئی خدا نہیں ہے اور تیسری بار یہ کہا کہ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ یعنی میں مسلمان ہوں ۔ (پ ۱۱، یونس : ۹۰)

روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرعون کے منہ میں خداوند تعالیٰ کے حکم سے کیچڑ بھ دی اور وہ اچھی طرح کلمہ ایمان ادا نہیں کر سکا۔ (تفسیر جلالین، ص ۱۷۸ ، پ ۱۱، یونس: ۹۰)

یہ بھی ایک حکایت منقول ہے کہ جب فرعون تخت سلطنت پر بیٹھ کر خدائی کا دعویٰ کرتا تھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آدمی کی شکل میں اس کے پاس یہ فتوی طلب کرنے کے لیے تشریف لے گئے کہ کیا فرماتے ہیں بادشاہ اس غلام کے بارے میں جو اپنے مولی کے دییے ہوئے مال کے اور اس کی نعمتوں میں پلا بڑھا پھر اس نے اپنے مولی کی ناشکری کی اور اس کے حقوق کا انکار کرتے ہوئے خود اپنی سیادت کا اعلان کر دیا بلکہ خدائی کا دعوی کرنے لگا تو فرعون نے اس کا جواب یہ لکھا کہ ایسا غلام جو اپنے مولیٰ کی ناشکری کر کے اپنے مولی کا باغی ہو گیا اس کی سزا یہی ہے کہ وہ دریا میں غرق کر دیا جائے چنانچہ جب ڈوبتے وقت فرعون پر موت کا غرغرہ سوار ہو گیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرعون کا وہ دستخطی فتوئی اس کو دکھایا اس کے بعد فرعون مر گیا (تفسیر صاوی، ج ۳، ص ۸۹۱، پ ۱۱، یونس: (۹۰)

اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
وَجٰوَزْنَا بِبَنِىٓ إِسْرٰٓءِيلَ ٱلْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُۥ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَدْرَكَهُ ٱلْغَرَقُ قَالَ ءَامَنتُ أَنَّهُۥ لَآ إِلٰهَ إِلَّا ٱلَّذِىٓ ءَامَنَتْ بِهِۦ بَنُوٓاْ إِسْرٰءِيلَ وَأَنَا۠ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ءَآلْـَٰٔنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ ٱلْمُفْسِدِينَ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (پ ۱۱، یونس ۹۰ – ۹۲)

ترجمہ کنز الایمان: اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے آلیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں کیا اب اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا آج ہم تیری لاش کو اترا دیں گے کہ تو اپنے پچھلوں کے لیے نشانی ہو اور بیشک لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔

فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد بھی بنی اسرائیل پر اس کی ہیبت کا اس درجہ دبدبہ چھایا ہوا تھا کہ لوگوں کو فرعون کی موت میں شک و شبہ ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو خشکی پر پہنچا دیا اور دریا کی موجوں نے اس کی لاش کو ساحل پر ڈال دیا تا کہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کی موت کا یقین بھی کر لیں اور اس کے انجام سے عبرت بھی حاصل کریں۔

مشہور ہے کہ اس کے بعد ہی سے پانی نے لاشوں کو قبول کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ پانی لاشوں کو اوپر تیرا تا رہتا ہے یا کنارے پر پھینک دیتا
ہے۔(تفسیر صاوی، ج ۳، ص ۸۹۲ ، پ ۱۱، یونس : ۹۲)

درس ہدایت: فرعون نے باوجودیکہ تین مرتبہ اپنے ایمان کا اعلان کیا مگر اس کا ایمان پھر بھی مقبول نہیں ہوا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے بارے میں مفسرین نے تین و جنہیں بیان فرمائیں ہیں :

اول: یہ کہ فرعون نے اپنے ایمان کا اقرار اس وقت کیا جب عذاب الہی اس کے سر پر مسلط ہو گیا اور موت کا غرغرہ اس پر طاری ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ أَيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا (پ،۲۴ ٢٤ المومن: ٨٥ ۸۵ )
یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو اس وقت ان کا ایمان لانا ان کو کچھ بھی نفع نہیں پہنچاتا۔

چونکہ فرعون عذاب آجانے کے بعد جب موت کا غرغرہ سوار ہو گیا، اس وقت ایمان لایا اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ایمان کو قبول نہیں فرمایا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا۔ کہ اس کے منہ میں کیچڑ بھر دیں اور یہ کہہ دیں کہ اب تو ایمان لایا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو ہمیشہ ایمان لانے سے انکار کرتا رہا اور لوگوں کو گمراہ کر کے فساد پھیلاتا رہا۔

دوم: یہ ہے کہ خدا کی توحید کے ساتھ رسول کی رسالت پر بھی ایمان لانان ضروری ہے اور فرعون نے لَا إِلٰهَ إِلَّا الَّذِي اٰمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَائِيلَ ( پ، ۱۱ یونس: ۹۰) کہا یعنی صرف خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان نہیں لایا۔ اس لیے وہ مومن نہ ہو سکا۔

سوم: یہ ہے کہ فرعون نے ایمان لانے کے قصد سے کلمہ ایمان کا تلفظ نہیں کیا تھا بلکہ صرف غرق سے بچنے کے لیے یہ کلمہ کہا تھا جیسا کہ اس کی عادت تھی کہ ہر مصیبت اور عذاب نازل ہونے کے وقت وہ گڑ گڑا کر خدا کی طرف رجوع کرتا تھا۔ لیکن مصیبت ٹل جانے کے بعد پھر انا رَبُّكُمُ الأعلى (پ، ٣٠ ۳، النزعت : ۲۴٢٤) کہہ کر اپنی خدائی کا ڈنکا بجایا کرتا تھا۔

معلوم ہوا کہ صرف کلمہ اسلام کا تلفظ جب کہ ایمان لانے کی نیت نہ ہو بلکہ جان بچانے کے لیے کہا ہو، ایمان کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہذا فرعون کا ایمان مقبول نہیں ہوا اور صحیح قول یہی ہے کہ فرعون کفر ہی کی حالت میں غرق ہو کر مرا۔ اس پر قرآن مجید کی آیتیں اور حدیثیں شاہد عدل ہیں۔ اس لیے علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ فرعون مؤمن ہو کر مرا، ان لوگوں کا قول قابل اعتبار نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے