فاروق اعظم کی علمی معاونت
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا ، مسلمانوں کی کثرت ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مفتوحہ و غیر مفتوحہ تمام علاقوں میں اس بات کی شدت سے کمی محسوس کی کہ ان نئے نئے مسلمانوں کو احکام شرعیہ سکھانے کے لیے ایسے اصحاب کو بھیجا جائے جو ان کو قرآن وسنت کے احکام تفصیل کے ساتھ سمجھائیں ، ان کی تربیت کریں اور ان کے مختلف مسائل کو حل کرتے ہوئے شرعی فتوے بھی جاری کریں ، اس وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مختلف شہروں میں مختلف صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس عظیم الشان مقصد کی تکمیل کے لیے بھیجا جس کے نتیجے میں کئی اسلامی درس گا ہیں ، جامعات ، مدارس و تربیتی دار الافتاء کا قیام عمل میں آیا ، اگر چہ ان علمی مراکز کی بظاہر وہ شکل تھی جو آج کل کے اسکول ، مدارس ، جامعات ، دار الافتاء یا درس گاہوں کی ہوتی ہے لیکن علمی وملی نتائج کے اعتبار سے وہ تمام مراکز قلیل وسائل کے باوجود آج کے تمام علمی مراکز سے کہیں زیادہ سودمند تھے ۔اگر حقیقت کے آئینے میں جھانک کر دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آج کل کے اسکول ، مدارس ، جامعات تربیتی دار الافتاء کے بنیادی ڈھانچے عہد فاروقی کے علمی مراکز ہی ہیں ۔اگر سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ علم کی نشر واشاعت سے متعلقہ میں اقدامات نہ فرماتے تو ہوسکتا تھا کہ آج ان تمام مدارس و جامعات اور دار الافتاء کا بھی وجود نہ ہوتا ، یقینایہ فیضان فاروق اعظم ہی ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم کا اصل مقصد :
امیر المؤمنین حضرت سید ناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل مقصد رضاۓ الہی کے لیے علم دین کو پھیلانا تھا ، یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تمام بھیجے ہوئے مدرسین ومفتیان کرام پر اس بات کو بالکل واضح فرما دیا تھا ۔ چنانچہ ایک بار آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : اے اللہ عزوجل ! میں مختلف شہروں کے امراء پر تجھ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو وہاں کی رعایا میں عدل وانصاف قائم کرنے اور لوگوں کو علم دین ، قرآن وسنت سکھانے کے لیے بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ ان کے اموال ان میں عدل وانصاف کے ساتھ تقسیم کر یں ۔