فاروق اعظم کی اپنی ہی عدالتوں میں حاضری
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے نظام عدلیہ میں مساوات کی ایک ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی جاتی رہے گی اور وہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ذاتی مقدمات بھی اپنی ہی بنائی گئی عدالتوں اور قاضیوں کے سامنے پیش فرماۓ ۔ تاریخ میں نہ تو آپ کے عہد سے پہلے اور نہ ہی بعد والے ادوار میں اس کی مثال ملتی ہے ۔ اللہ تعالی کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ پر ، پوری دنیا پر اس بات کو روشن فرمادیا کہ نظام عدلیہ میں ہر چھوٹا بڑاسب برابر ہیں اگر چہ وہ خلیفہ وقت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے مقدمے کا بھی فیصلہ ویسے ہی کیا جاۓ گا جیسے ایک عام آدمی کا فیصلہ کیا جا تا ہے ۔ دو ۲ واقعات پیش خدمت ہیں :
فاروقی جج اور فاروق اعظم کا فیصلہ :
حضرت سید نا امام شبشمی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے عہد کے قانون دان بزرگ صحابی ، چاروں آسمانی کتابوں کے بہت بڑے عالم حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعال اللہ کے درمیان کسی چیز پر نزاع ہو گیا ۔ اس معاملے میں حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ مدعی اور سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مدعی علیہ تھے ۔ بہرحال دونوں میں یہ طے ہوا کہ مدینہ منورہ کے عدالتی حج حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس چلتے ہیں وہ جوفیصلہ کر لیں گے دونوں اسے تسلیم کر لیں گے ۔ دونوں حضرات ان کے گھر تشریف لے گئے کیونکہ حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی عادت تھی کہ وہ عمومی مقدمات کے فیصلے اپنے گھر میں ہی کر دیا کرتے تھے ۔ جیسے ہی سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ان کے گھر میں داخل ہوۓ تو ارشادفرمایا : اتیناک لتحکم بیننا یعنی اے زید بن ثابت ! ہم تمہارے پاس اپنے معاملے کا فیصلہ کروانے کے لیے آۓ ہیں حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بچھونے کا ایک حصہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے پیش کر تے ہوۓ عرض کیا : ههنایا امیر المؤمنین یعنی اے امیر المؤمنین ! آپ یہاں تشریف رکھیے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فر مایا : لقد جرت في الفتيا ولكن اجلس مع خصصی یعنی اے زید بن ثابت ! یہ پہلا ظلم ہے جو تم نے اپنے فیصلے میں کیا میں تمہارے ساتھ کیوں بیٹھوں گا ؟ میں اپنے معاملے کا فیصلہ کروانے آیا ہوں لہذا اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا ۔ بہر حال دونوں حضرت سید نازید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے بیٹھ گئے ، سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے دعوی کیا اور سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کر دیا ۔ چونکہ دعوی کرنے والے پر دلیل اور انکار کر نے والے پرقسم ہوتی ہے لہذا سید نازید بن ثابت رضی اللہ تعالی نے حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی : ‘ ‘ اعف أمير المؤمنين من اليمين وما كنت لاسالها لأحد غيره یعنی آپ امیر المؤمنین کو قسم اٹھانے سے معاف رکھیے آج تک میں نے کسی کے لیے یہ درخواست نہیں کی ۔ ‘ ‘ یہ سن کرسید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم اٹھالی اور فیصلہ آپ کے حق میں ہو گیا ۔ لیکن آپ رضي الله تعالی عنہ نے حضرت سید نازید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی فیصلہ کرنے میں دو ۲ غلطیوں یعنی”امیر المؤمنین کو بیٹھنے کے لیے جگہ دینا ‘ ‘ ”اور ان کو قسم اٹھانے کی زحمت نہ دینا ‘ ‘ کے سبب اس بات پر بھی قسم اٹھائی کہ عمر کے ہوتے ہوئے اب بھی زید بن ثابت فیصلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ آپ کے نزد یک عدل وانصاف کے حصول میں تمام مسلمان برابر ہیں ۔
سید نا ابی بن کعب نے فاروق اعظم کا فیصلہ کیا :
حضرت سید نا ابن سیرین رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سید نا معاذ بن عفراء رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان کسی بات پر تنازع ہو گیا تو ان دونوں نے حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو ثالث مقرر کیا ۔ دونوں سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر پہنچے تو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : ’ ’ إلى بيته يؤتى الحكم یعنی یہ وہ ہیں کہ حاکم بھی ان کے گھر فیصلہ کروانے آتے ہیں ۔ ‘ ‘ بہر حال حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فریقین کا مقدمہ سننے کے بعد امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں قسم کے ساتھ فیصلہ دے دیا ۔