فاروق اعظم کا اپنے نفس کا محاسبہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ دیگر مختلف امور کے احتساب کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کے محاسبے کی بھی ترغیب دلاتے رہتے تھے ، نیز آپ خود اپنے نفس کا بھی مختلف مواقع پر احتساب فرماتے رہتے تھے ۔
اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو :
ایک بارامیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفر مایا : اے لوگو ! اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کتاب لیا جائے ، بڑے دن کی حاضری کے لیے تیاری کرو اور قیامت کے روز اس شخص کا حساب بھی کم ہوگا جو دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا ۔
فاروق اعظم اور محاسبہ نفس :
حضرت سید نا ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کہیں باہر نکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا ، کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک باغ میں داخل ہوئے ۔ میرے اور ان کے درمیان ایک دیوارتھی ، میں نے سنا آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے بطور عاجزی ارشادفرمارہے تھے : امیر المؤمنين ! والله لتتّقين الله أو ليعذبنک یعنی مسلمانوں کا امیر واہ رے واہ ! اللہ عزوجل سے ڈرتے رہو ورنہ اللہ تعالی کی قسم ! وہ تمہیں ضرور عذاب دے گا ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! واقعی عمل آخرت کی یاد دلانے کے لیے نہایت ہی مفید ہے بعض اوقات انسان کو چاہیے کہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے نفس کومخاطب کرے اور روز مرہ کے مختلف کاموں کے متعلق اس کا محاسبہ کرے ۔
نفس کو ذلیل کرنے کی ٹھان لی :
حضرت سید نا عبد الله بن عمر بن حفص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے کندھے پرمشکیز ہ اٹھالیا ۔ آپ سے عرض کی گئی کہ حضور آپ مت اٹھائیں ، ارشاد فرمایا : إنّ نفسي أعجبتني فاردت أن أذلها یعنی میرے نفس نے مجھے خود پسندی میں مبتلا کر دیا تو میں نے اسے ذلیل کرنے کے لیے ایسا کیا ۔
سبحان الله عزوجل سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ کی کیسی مدنی سوچ تھی ، کیا ہی پیارا انداز تھا قطعی جنتی ہونے کے باوجود اپنے نفس کو سزا دینے کے لیے اپنے کندھے پر مشکیزہ اٹھالیا ، ایک ہم ہیں کہ نفس کی شرارتوں سے واقف نہیں ، اس نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے لیکن پھر بھی ہمارا دل مطمئن ہے ۔کاش ! ہم بھی فکر مدینہ کرتے ہوئے اپنے نفس کو خود پسندی کی آفت سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! شیخ طریقت ، امیر اہلسنت ، بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ سیرت فاروقی کے مظہر ہیں ، آپ نے ہمیں یہ مدنی مقصد عطا فر ما یا کہ ” مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ آپ نے اسلامی بھائیوں ، اسلامی بہنوں اور طلبہ کوفرائض و واجبات سنن و مستحبات اور اخلاقیات کا پابند بنانے اور مہلکات ( یعنی گناہوں )سے بچانے کے لیے مد نی انعامات کی صورت میں خود احتسابی کا ایک نظام عمل عطا فر ما یا ہے ، کثیر اسلامی بھائی ، اسلامی بہنیں اور طلبہ مد نی انعامات کے مطابق عمل کر کے روزانہ سونے سے قبل "فکر مدینہ “ یعنی اپنے اعمال کا جائزہ لے کر مدنی انعامات کا رسالہ پر کرتے ہیں ۔ اسلامی بھائیوں کے لئے بہتر ۷۲ ، اسلامی بہنوں کے لئے تریسٹھ ۶۳ ، اسکولز ، کالجز اور جامعات کے طلبہ کے لئے بانوے ۹۲ ، طالبات کے لئے تراسی ۸۳ اور مدرسۃ المدینہ کے مدنی منوں کے لئے چالیس ۴۰ مدنی انعامات ہیں ۔ان مدنی انعامات پر عمل کرنے کی برکت سے نیک بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں اللہ لازوال کے فضل وکرم سے بتدریج دور ہو جاتی ہیں اور اس کی برکت سے پابند سنت بننے ، گناہوں سے نفرت کرنے اور ایمان کی حفاظت کے لئے کڑھنے کا ذہن بنتا ہے ۔ آیئے مدنی انعامات کی بہار ملاحظہ فرمایئے اور روز فکر مدینہ کی نیت کیجئے ۔
روز انہ فکر مدینہ کرنے کا انعام : ایک اسلامی بھائی کا بیان ہے : الحمد للہ عزومل مجھے مد نی انعامات سے پیار ہے اور روزانہ فکر مدینہ کرنے کا میرا معمول ہے ۔ایک بار میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلے میں عاشقان رسول کے ساتھ صوبہ بلوچستان پاکستان کے سفر پر تھا ۔ اسی دوران مجھ گنہ گار پر باب کرم کھل گیا ۔ ہوا یوں کہ رات کو جب سو یا تو قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ، جناب رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لے آۓ ، ابھی جلوؤں میں گم تھا کہ لب ہائے مبارکہ کو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھٹر نے لگے ، الفاظ کچھ یوں ترتیب پاۓ : ” جومدنی قافلے میں روزانہ فکر مدینہ کرتے ہیں میں انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤں گا ۔ “ شکریہ کیوں کر ادا ہو آپ کا یا مصطفیٰ …… کہ پڑوی خلد میں اپنا بنایا شکریہ
صلوا على الحبيب صلى الله تعالى على محمد