فاروق اعظم کے مبارک انداز


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے حسن ظاہری کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کا پیارا سراپا ہمارے سامنے موجود ہے ، ساتھ ہی دل میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ اس پیاری ہستی کے چلنے ، کھانے ، سونے وغیرہ کے بھی کتنے ہی پیارے اور مبارک انداز ہوں گے ۔ قارئین کے ذوق کو برقرار رکھنے کے لیے انتمالا آپ رضی اللہ تعالی اللہ عنہ کے چند مبارک انداز پیش خدمت ہے۔

فاروق اعظم کے مبارک انداز


فاروق اعظم کے چلنے کا مبارک انداز :


حضرت سیدنا سماک بن حزب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : ” كان عمر بن الخطاب أروح کانه راكب والناس يمشون یعنی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کشادہ قدموں کے ساتھ چلا کرتے تھے اور چلتے ہوئے ایسا لگتا گویا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کسی سواری پر سوار ہیں اور دیگر لوگ پیدل چل رہے ہیں ۔ ‘‘


فاروق اعظم کے کھانے کا مبارک انداز :


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نہایت ہی متقی اور پر ہیز گار تھے قطعی جنتی ہونے کے باوجود ہمیشہ فکر آخرت دامن گیر رہتی تھی اور یہی فکر آپ کو بھوکا رہنے پر اکساتی رہتی تھی ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خوارک نہایت ہی قلیل تھی کبھی جو کی روٹی کے ساتھ زیتون کبھی دودھ کبھی سرکہ کبھی سکھا یا ہوا گوشت تناول فرماتے ، تازہ گوشت بہت ہی کم استعمال کرتے تھے کبھی دوکھانے اکٹھے نہیں کھاۓ ۔منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایسی خشک روٹی کھایا کرتے تھے کہ عام لوگ اسے کھانے سے عاجز آ جائیں ۔ نیز کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے کناروں کو علیحد ہ کر کے کھانا آپ رضی اللہ تعال منہ کو سخت نا پسند تھا ۔


فاروق اعظم کے گفتگو کرنے کا مبارک انداز :


امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بولنے اور بات کرنے کا نہایت ہی مبارک انداز تھا ، عام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی گفتگو کا انداز بہت نرم تھالیکن آپ کے چہرہ مبارکہ کی وجاہت اور رعب و دبدبے کی وجہ سے اس میں شدت محسوس ہوتی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں لوگوں کو سب سے زیادہ حق بات کہنے کا حوصلہ ملا لیکن جہاں کہیں شرعی معاملے کی خلاف ورزی ہوتی وہاں آپ رضی اللہ تعالی عنہ سختی فرماتے اور یقینا یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی غیرت ایمانی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ بیسوں واقعات ایسے ملتے ہیں کہ جہاں کہیں اسلامی غیرت کا معاملہ آتا وہاں آپ رضی اللہ تعالی عنہ فورا جلال میں آجاتے ۔


فاروق اعظم کے بیٹھنے کا مبارک انداز :


امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی مکمل سیرت طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھتے بہت کم تھے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہا کرتے تھے ، البتہ جب بیٹھتے تھے تو چارزانوں بیٹھا کرتے تھے ، چنانچہ امام زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے : کان عمر بن الخطاب يجلس متربعا یعنی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ عموماً چارزانوں بیٹھا کرتے تھے ۔


فاروق اعظم کے سونے کا مبارک انداز :


بسا اوقات آپ رضی اللہ تعالی عنہ لیٹتے تو ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر چڑھا لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ امام زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے : ’ ’ کان عمر بن الخطاب يستلقي على ظهره ويرفع إحدى رجليه على الأخرى یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جب لیٹتے تو ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر چڑھالیا کرتے تھے ‘‘ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! عموما ایسا ہوتا ہے کہ جسے کوئی منصب مل جائے اگر چہ وہ اس منصب پڑتمکن ہونے سے پہلے سادہ زندگی گزارتا ہو لیکن منصب ملنے کے بعد اس کے طور طریقے میں کچھ نہ کچھ تبد یلی ضرور واقع ہو جاتی ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی جیسے ہی منصب خلافت پر متمکن ہوۓ ان کی حیات مبارکہ میں بھی کافی تبدیلی آگئی لیکن یہ تبد یلی فکر آخرت سے بھر پورتھی ، پہلے آپ عام زندگی گزاررہے تھے لیکن جیسے ہی منصب خلافت پر متمکن ہوۓ تو زمین پر کچھ بچھائے بغیر ہی آرام فرما ہو جاتے اور دوران سفر کوئی سائبان یا خیمہ وغیرہ ساتھ نہ رکھتے بلکہ کہیں پڑاؤ کرنا ہوتا تو کپڑا درخت پر لٹکا کر یا چمڑے کا ٹکڑا درخت پر ڈال کر اس کے سائے میں آرام کر لیتے ۔ جیسا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ روم کا ایلچی آپ کے بارے میں دریافت کرتا ہوا جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ زمین پر آرام فرمارہے تھے ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ مسلمانوں کا امیر کتنے سکون سے زمین پر آرام فرما ہے حالانکہ اس کے رعب اور دبدبہ سے قیصر وکسری کانپتے ہیں ۔


فاروق اعظم کے کام کرنے کا مبارک انداز :


بسا اوقات حکمرانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے بہت ہی کم کام کرتے ہیں اکثر حکم دے کر اپنے ماتحتوں سے کام لینے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات مبارکہ میں ایسی کوئی عادت نہ تھی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ دونوں ہاتھوں سے بیک وقت کام کرنے میں مہارت رکھتے تھے ۔ چنانچہ حضرت سید نا سلمہ بن اکون رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : ’ ’ کان عمر رجلا أعسر يعنى يعتمد بیدیہ جمیعا یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اچھی طرح کام کرنے والے تھے ۔


فاروق اعظم کے سفر کرنے کا مبارک انداز :


آپ رضی اللہ تعالی عنہ جیسے حضر یعنی سفر کے علاوہ زندگی میں نہایت ہی سادگی اختیار فرماتے تھے بعینہ سفر میں بھی آپ کی یہی عادت مبار کہ تھی ، نہ تو آپ اپنے ساتھ کوئی خیمہ وغیرہ لیتے اور نہ ہی کوئی سائیان ، جہاں قیام کرنا ہوتا تو کہیں زمین پر کپڑا بچھا کر اس پر لیٹ جاتے اور بھی تو درخت پر چادر ڈال کر اس کے سائے میں آرام فرماتے ۔ چنانچہ حضرت سید نا عبد الله بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حج ادا کیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سفر میں جہاں کہیں پڑاؤ کیا نہ تو وہاں خیمہ لگایا اور نہ ہی سائبان ، بس درخت پر چادر اور چپڑے کا بڑ انگڑاڈال دیتے اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے ۔


فاروق اعظم کے لباس کامدنی انداز :


امیر المؤمنین ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی شاہانہ لباس کو ترجیح نہ دی ہمیشہ سادہ لباس ہی پہنا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ صرف ایک جبہ پہنا کرتے تھے اور اس میں بھی جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے ، کہیں کہیں اس میں چمڑے کا بھی پیو ند لگا ہوتا تھا ۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی قمیص پر تین پیوند جبکہ تہبند پر بارہ پیوند لگے ہوئے تھے ۔ یہاں تک کہ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ کے لباس پر چودہ پیوند لگے ہوئے تھے ۔


فاروق اعظم کی مسکراہٹ :


امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ان حکمرانوں کے سردار تھے جن پر فکر آخرت ہی غالب رہتی تھی ، فکر آخرت کے سبب انہیں بھی کوئی ایسا موقع ہی نہ ملتا تھا کہ وہ کھلکھلا کر ہنتے ۔ عہد رسالت میں جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے تو بسا اوقات رسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو جا تا تھا ۔ کیونکہ ان کی خوشی محبوب کی خوشی میں تھی ، جب دیکھتے کہ آج محبوب خوش ہیں تو یہ بھی خوش ہوجاتے ۔ البتہ آپ کے عہد خلافت کی کوئی ایسی واضح روایت نہیں ملتی کہ جس میں آپ کے ہنسنے کا تذکرہ ہوالبتہ علمائے کرام نے اس بات کو ضرور بیان فرمایا ہے کہ آپ بہت ہی کم ہنستے تھے ۔ چنانچہ علامہ ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ’’ کان قليل الضحک یعنی امیر المؤمنین حضرت سید ناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بہت ہی کم ہنسنے والے تھے ۔ ‘‘

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے