فاروق اعظم کی عاجزی و انکساری
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جب کسی شخص میں لا تعداد ایسے اوصاف موجود ہوں جو اس کی شخصیت کی بھر پور عکاسی کرتے ہوں اور لوگوں میں ان کا چرچہ بھی ہوتو بسا اوقات ایسا شخص اپنے نفس کے مکر وفریب میں آکر تکبر اور خود پسندی جیسے امراض میں مبتلا ہو جا تا ہے ، لیکن امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ بے شمار اوصاف کے حامل ہونے کے باوجود بحمد الله تعالى ان باطنی امراض سے پاک اور مبراء تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ پر کئی کتب لکھی جا چکی ہیں اور تقریبا تمام لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اخلاق ، عادات واطوار کو بیان کرتے ہوئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عاجزی و انکساری اور تواضع کو ایک مستقل باب میں بیان کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ آپ جیسے عالم اسلام کے عظیم حکمران کا حقوق الله حقوق الرسول ، حقوق اہل بیت ، حقوق العباد کی پاسداری ، عدل وانصاف ، امن وامان قائم کر نے علم دین کی نشر و اشاعت وغیرہ جیسے جواہرات سے مرصع تاج پر عاجزی و انکساری ایک خوشنما طرہ معلوم ہوتی ہے۔اس عاجزی و انکساری کے سبب اللہ نے آپ کو وہ عزت اور مقام ومرتبہ عطا فرمایا کہ آج تک چہار دانگ عالم میں آپ کے ذکر کی دھوم ہے اور تا قیامت تمام مسلمان آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اوصاف حمیدہ کو ان شاء اللہ بیان کرتے اور ان پرعمل کرتے رہیں گے ۔
عاجزی و انکساری سے رفعت ملتی ہے :
حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ شفیع روز شمار ، دوعالم کے مالک و مختار ، حبیب پروردگار صلى اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے : ما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلّا رفعہ اللہ یعنی اللہ بندے کے عفو و درگزر کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلندی عطا فر ما تا ہے ۔ ‘‘
حسن اخلاق کے پیکر ، نبیوں کے تاجور ، محبوب رب اکبر صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے : ” التواضع لا يزيد العبد إلا رفعة فتواضعوا يرفعكم الله والعفو لا يزيد العبد إلا عزا فاعفو يعزكم الله یعنی تواضع سے بندے کی رفعت میں اضافہ ہوتا ہے ، لہذا تواضع اختیار کرو ، اللہ تمہیں بلندی عطا فرماۓ گا اور درگزر سے کام لینا عزت میں اضافہ کرتا ہے لہذا عفو و درگزر سے کام لیا کرو ، اللہ تمہیں عزت عطا فرماۓ گا ۔ ‘‘
فاروق اعظم زمین پر آرام فرماتے :
حضرت سید نا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : ” لما نفر عمر كوم كومة من تراب ثم بسط عليها قويه واستلقى عليها یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنه جب شہر سے باہر کہیں سفر وغیرہ پر جاتے تو راستے میں استراحت کے لیے مٹی کا ڈھیر لگا کر اس پر کپڑا بچھاتے اور پھر آرام فرماتے ‘‘
فاروق اعظم کا سفر حج عام مسلمانوں کی طرح :
حضرت سید نا عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ حج کے لیے مکہ مکرمہ کو روانہ ہوۓ تو پورے سفر حج میں جہاں کہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑاؤ کیا ، نہ وہاں خیمہ لگا یا نہ قنات ، صرف یہ کہ کسی درخت پر چادر یا چٹائی ڈال لیتے اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے ۔ ‘‘
فاروق اعظم کی عاجزی وانکساری کی انتہا :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ملک شام تشریف لے گئے ، حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ دونوں ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا ، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ، اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتار کر اپنے کندھے پر رکھ لئے ، پھر اونٹنی کی لگام تھام کر پانی میں داخل ہو گئے تو حضرت سید نا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : ” مایسرنی أن أهل البلد إستشرفوک یعنی اے امیر المؤمنین ! آپ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کام کر رہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو نظر اٹھا کر دیکھیں ‘ ‘ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عاجزی وانکساری سے بھر پور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’ آو لم يقل ذا غيرک اباعبيدة جعلته نكالا لامة محمد صلى الله عليه وسلم إنا كنا أذل قوم فاعزنا الله بالإسلام فمهما تطلب العرب غير ما أعزنا الله به اذلنا اللہ یعنی افسوس اے ابوعبید ہ ! اگر یہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اس امت کے لئے نشان عبرت بنا دیتا ۔ کیا تمہیں یاد نہیں ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے ، پھر اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ، جب بھی ہم اللہ کی عطا کردہ عزت کے علاوہ عزت حاصل کرنا چاہیں گےتو اللہ عزوجل ہمیں رسوا کر دے گا ۔ ‘‘
عید گاہ کی طرف ننگے پاؤں تشریف لے جانا :
حضرت سیدنا زر رضی الله تعالی علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : رایت عمر ابن الخطاب يمشي حافياً یعنی میں نے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ( نماز عید کے لیے ننگے پاؤں ہی تشریف لیے جار ہے ہیں ۔ ‘‘
عاجزی کے متعلق فرمان فاروق اعظم :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : " إن العبد إذا تواضع لله رفع الله حكمته یعنی بندہ جب اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کی قدر ومنزلت کو بڑھا دیتا ہے ۔ ‘‘
میرے عیب بتانے والا میرا محبوب :
حضرت سید نا سفیان بن عیینہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : ’ ’ أحب الناس إلى من رفع إلى عيوبہ یعنی مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو مجھے میرے عیب بتاۓ ۔
اپنے نفس سے عاجزی کا اقرار :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! حضرت علامہ ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ’’ فمن سعادة المرء أن يقر على نفسه بالعجز والتقصير في جميع أفعاله وأقوالهہ یعنی آدمی کی خوش بختی کی ایک علامت میں بھی ہے کہ وہ اپنے نفس سے عاجزی اور اپنے تمام افعال واقوال میں کوتاہی کا اقرار کرے ‘‘ امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی یہ عادت مبارک تھی کہ نہایت ہی عاجزی اونکساری کرنے کے ساتھ ساتھ بسا اوقات آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے نفس سے بھی عاجزی کا اقرارکرواتے ۔ چنانچہ حضرت سید نا ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کہیں باہر نکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا ، کیا دیکھتا ہوں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک باغ میں داخل ہوۓ ۔میرے اور ان کے درمیان ایک دیوارتھی ، میں نے سنا آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے بطور عاجزی ارشاد فرمارہے تھے : ’ ’ امیر المؤمنين ! والله لتتقين الله أو ليعذبنک یعنی اے مسلمانوں کے خلیفہ قسم بخدا ! تم اللہ اہل سے ڈرتے رہو ، ورنہ وہ تمہیں ضرور عذاب دے گا ۔ ‘‘
نفس کو ذلیل کرنے کا عزم :
حضرت سید نا عبد اللہ بن عمر بن حفص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے اپنی پشت پر مشکیزہ اٹھالیا ۔ آپ سے عرض کی گئی کہ حضور آپ مت اٹھائیں ، ارشاد فرمایا : ” إن نفسي اعجبتين فأردت أن أذلها یعنی میرے نفس نے مجھے نجنب پسندی میں مبتلا کر دیا تو میں نے اسے ذلیل کرنے کی ٹھان لی ۔ ‘
فاروق اعظم کی تکبیر کی نحوست سے پاکیزگی : میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی عاجزی و انکساری کو پڑھ کر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ جہاں عاجزی و انکساری کے پیکر تھے وہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ تکبر جیسی نحوست سے پاک وصاف تھے ۔ کیونکہ تکبر یہ ہے کہ آدمی اپنے کو دوسروں سے بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے آپ سے حقیر جانے ۔ تکبر کا انجام ذلت و خواری ہے جو تکبر کرے گا یقینا ذلیل ہوگا ۔
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد
یعنی تکبر نے عزازیل ( شیطان کو ذلیل و خوار کر دیا اور اس کولعنت کے جیل خانہ میں گرفتار کر دیا ۔ ‘‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ رسول اللہ امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد سب سے افضل و بہتر ہونے کی بارگاہ رسالت سے سند عطا ہوئی لیکن آپ نے بھی تفاخرانہ انداز اختیار نہ کیا اور نہ ہی کسی مسلمان کو حقیر جانا ۔ بلکہ بسا اوقات آپ دیگر مسلمانوں کو اپنے سے بہتر ارشادفرماتے ۔ چنانچہ ، حضرت سید نا ابورافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ میرے قریب سے گزرے تو میں قرآن پاک کی خوبصورت لہجے میں تلاوت کر رہا تھا ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سن کر ارشاد فر مایا : یا ابا رافع ! لأنت خير من عمر تؤدي حق الله وحق موالیک یعنی اے ابو رافع ! یقینا تم عمر سے بہتر ہو کہ تم اللہ عزوجل کے حقوق اور اپنے آقا کے حقوق اچھی طرح ادا کرتے ہو ۔