فاروق اعظم نے ایک شخص سے معافی مانگی: 

   حضرت سید نا عامر شعبی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا : اني لابغض فلانا یعنی مجھے فلاں شخص سے نفرت ہے ۔ یہ بات کسی نے اس شخص کو بھی بتادی ۔ اس کے بعد دوبارہ کئی لوگوں نے جب اس سے یہ بات ذکر کی تو وہ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : ” حضور ! یہ ارشادفرمائیں کہ میں نے اسلام میں کوئی پھوٹ ڈالی ہے “ فرمایا : ” نہیں ۔ “ عرض کیا : ” کیا میں نے کوئی جرم کیا ہے ؟ “ فرمایا : ”نہیں ۔“عرض کیا : ” میں نے کسی بدعت ( سیئہ) کا ارتکاب کیا ہے ؟ “ فرمایا نہیں ۔“ عرض کیا : ” حضور ! جب میں نے ان تمام ناجائز کاموں میں سے کوئی نہیں کیا تو آپ مجھے کیوں نا پسند کرتے ہیں ؟“ حالانکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : والذين يؤذون المؤمنين والمؤمنت بغير ما اكتسبوا فقد احتملوا بهتانا وإثما مبينا(پ: ۲۲ ، الاحزاب: ۵۸ ) ترجمہ کنزالایمان : ” اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سرلیا۔ “یقینا آپ کے اس قول سے مجھے تکلیف پہنچی ہے ، اللہ تعالی آپ کو بھی معاف نہیں کرے گا ۔ “یہ سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ” اس نے سچ کہا اللہ تعالی کی قسم ! نہ تو اس نے اسلام میں کوئی پھوٹ ڈالی اور نہ ہی کوئی دوسرا جرم کیا ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص سے معافی مانگی اور اس وقت تک معافی مانگتے رہے جب تک اس نے معاف نہ کر دیا۔ 

حضرت عمر فاروق کی انکساری


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات مبارکہ میں فکر آخرت کا کیسا عظیم جذبہ کارفرما تھا کہ آپ اس شخص سے اس وقت تک معافی مانگتے رہے جب تک اس نے معاف نہ کر دیا ، آج ہمارا حال یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں ، ان کے مال وغیرہ ہڑپ کر جاتے ہیں لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ پیارے اسلامی بھائیو ! آخرت کا معاملہ نہایت دشوار ہے ، حقوق العباد کے معاملے میں احتیاط فرمایئے ، اگر کسی کا کوئی حق تلف کر دیا ہو تو اس سے دنیا میں ہی معاف کروا لیجئے کہ اس میں آخرت کی بھلائی ہے ۔ یقینا کسی سے معافی مانگنا عزت میں کمی نہیں بلکہ زیادتی کا باعث اور نہایت ہی دانشمندی کا کام ہے ۔

 سب سے زیادہ عقل مند: 

   حضرت سیدنا احنف بن جحادہ رحمۃاللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فر مایا : أعقل الناس أعذرهم لھم یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہی ہے جو زیادہ معذرت کر نے والا ہے ۔

نہ کوئی محافظ ، نہ کوئی خادم : 

   ایران کے چند وفودامیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے کے لیے آۓ ۔ وہ لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوۓ آپ کے گھر آۓ تو پتا چلا کہ آپ مسجد میں ہیں ، مسجد میں آۓ تو دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس طرح تشریف فرما ہیں کہ نہ تو آپ کے پاس کوئی محافظ ( Guard ) ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص ۔ یہ عجیب وغریب منظر دیکھ کر وہ سب بیک زبان پکار اٹھے : هذا هو الملك والله لا ملک کسری یعنی اللہ تعالی کی قسم ! حقیقی بادشاہ تو یہ ہیں نہ کہ شاہ کسری ۔ 

فاروق اعظم غلاموں کا ہاتھ بٹاتے :

    امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ہر ہفتے مدینہ منورہ کے اطراف کے علاقہ میں جایا کرتے جہاں باغات اور کھیت وغیرہ ہوتے تھے ۔ وہاں کام کرنے والے غلاموں میں اگر کوئی ایسا غلام ہوتا جسے وزن وغیرہ اٹھانے میں مشقت ہوتی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے کام میں معاونت فرمایا کرتے ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے