فاروق اعظم کی دنیا سے بے رغبتی



آخرت کے معاملے میں جلدی ہونی چاہیے :


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۸۲ صفحات پرمشتمل کتاب ” دنیا سے بے رغبتی اور امیدوں کی کمی ” ص ۷۳ پر ہے : امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ آخرت کے معاملے میں سستی کو بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے : ’ ہر کام میں آہستگی ہونی چاہیے سوائے آخرت کے معاملے میں ۔


رسول اللہ اور صدیق اکبر کی طرح زندگی:


ایک بار آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت سیدتنا حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ سے عرض کی : ” اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ان کپڑوں کے بجاۓ نرم و ملائم کپڑے پہنیں اور اپنے اس کھانے سے زیادہ عمدہ کھانا کھائیں تو کیا حرج ہے ؟ کیونکہ اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا رزق وسیع کر دیا ہے اور آپ کو بہت زیادہ خیر عطا فرمائی ہے ۔ ” امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فارق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : ” میں تجھے سرزنش کروں گا ، کیا تمہیں یاد نہیں کہ اللہ کے محبوب ، دانائے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ پسند نہیں فرماتے تھے ؟ ‘‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی صاحبزادی کو بار بار یہی فرماتے رہے حتی کہ انہیں رلا دیا پھر ارشادفرمایا : ” میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اللہ کی قسم ! اگر مجھے تو فیق ملی تو میں ان دونوں یعنی حضور نبی کریم ، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور آپ کے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح کٹھن زندگی اختیار کروں گا ہوسکتا ہے میں ان کی پسندیدہ زندگی پالوں ۔ ‘‘


فاروق اعظم کی دنیا سے بے رغبتی اور لاتعلقی:


حضرت سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : ” ما كان عمر بن الخطاب باولنا إسلاما ولا أقدمناهجرة ولكنه كان أزهدنا في الدنيا وأرعبنا في الآخرة یعنی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نہ تو ہم سے پہلے ایمان لائے اور نہ ہی ہم سے پہلے ہجرت کی ، مگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے بڑھ کر دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے شائق تھے ۔ “


فاروق اعظم سب سے زیادہ دنیا سے بے رغبت :


حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله تعالى عنہ فرماتے ہیں : ” والله ما كان عمر بأقدمناهجرة وقد عرفت بأي شيء فضلنا كان أزهدنا في الدنيا یعنی اللہ کی قسم ! امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ ہجرت کرنے میں ہم سے مقدم نہیں لیکن میں نے اس بات کو جان لیا ہے کہ وہ کیوں ہم پر فضیلت وسبقت لے گئے ہیں ؟ اور وہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہم میں سب سے زیادہ دنیا سے بے رغبت ہیں ۔ ”



آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں !

حضرت عمر فاروق کی انکساری

حضرت عمر فاروق کا دنیا سے بے رغبتی

حضرت عمر فاروق اور خواہشات نفس

فاروق اعظم اور خوف خدا



فاروق اعظم حقیقی عبادت گزار  :


حضرت سید اشفاء بنت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنھا چند نو جوانوں کے پاس سے گزریں تو دیکھا کہ وہ آپس میں گھسر پھسر کر رہے ہیں ، آپ نے فرمایا : ‘ یہ کیا ہے ؟ ” انہوں نے کہا : ” عبادت گزارلوگ ” ( یعنی یہ عبادت گزار لوگ ہیں اس لیے آہستہ آہستہ بات کر رہے ہیں ۔ ) فرمایا : اللہ کی قسم ! امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ جب بھی بات کیا کرتے تو اتنی بلند آواز سے کہ با آسانی سنی جاتی ، جب چلتے تو تیز تیز چلتے ، جب ضرب لگا تے تو اس طرح کہ درد ہوتا حالانکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ حقیقی عبادت گزار تھے ‘‘


دنیا کی لذتوں کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں :


حضرت سیدنا سالم بن عبد اللہ رضی اللہ تعال اللہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے : والله مانعبأبلذات العيش ولكنائستبقي طيباتنا لأخرتنا يعنى خدا کی قسم ! ہمیں دنیا کی لذتوں کی کوئی پرواہ نہیں ، ہم اپنی پاکیزہ نعمتیں آخرت کے لیے بچار ہے ہیں ۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ جو کی روٹی زیتون کے ساتھ تناول فرماتے ، پیوند لگے کپڑے پہنتے اور اپنا کام خود کر تے ۔


دنیا سے بالکل بے رغبت خلیفہ : حضرت سیدنا أحنف بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جنگ لڑ نے عراق بھیجا ۔ اللہ نے ہمیں عراق اور فارس پر فتح عطا فرمائی ۔ مال غنیمت میں فارس کا سفید کپڑ ا کثرت سے ہمیں حاصل ہوا ، کچھ ہم نے استعمال کر لیا لیعنی پہن لیا اور باقی ساتھ رکھ لیا ۔ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے اور امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضری دی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہم سے منہ پھیر لیا اور کلام تک نہ کیا اور ایسی بے رخی ظاہر کی گویا انہوں نے ہمیں دیکھا تک نہیں ۔ ہم بڑے پریشان ہوئے ، بہر حال ہم نے اس بات کا تذکرہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنه سے کیا ۔ انہوں نے فرمایا : میرے والد ماجد امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعال عنہ دنیا سے بالکل بے رغبت ہیں ، انہوں نے آپ لوگوں کو اس قیمتی لباس میں دیکھا ہے جو نہ تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و الہ وسلم نے پہنا اور نہ ہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پہنا آپ لوگوں کے ساتھ اس روکھے رویے کی صرف یہی وجہ ہے ۔ ‘‘


حضرت سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی ہم نے یہ سنا تو اپنے گھروں میں آۓ ، وہ کپڑے اتارے اور پرانے کپڑے پہن کر واپس آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑے ہی پر تپاک طریقے سے ملاقات فرمائی ، ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سلام کیا اور ایک ایک کو گلے لگایا ، گو یا اس سے قبل آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہم سے ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی ۔


مال غنیمت میں سے حلوے کی قسم سے زرد اور سرخ رنگ کی کوئی میٹھی چیز آپ کے سامنے آئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے چکھا ۔ وہ بہت ہی خوش ذائقہ اور خوش بودارتھی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشادفرمایا : اے مہاجرین و انصار ! یہ شے اتنی لذیذ ہے کہ اسے پانے کے لیے باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو قتل کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول الله صلى الله تعال عليه واله وسلم کے دور میں شہید ہونے والے مہاجرین انصار کی اولاد میں اسے تقسیم کر دیا ۔ بعد ازاں آپ رضی اللہ تعالی عنہ گھر تشریف لے گئے اپنے لیے اس لذیذ شے میں سے کچھ نہ رکھا ۔


سونے ، جواہرات کے خزانوں کی تقسیم :


جب عراق فتح ہوا اور شام کسری کے خزانے مدینہ طیبہ لائے گئے تو بیت المال کے خزانچی نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں عرض کیا : کیا یہ خزانے بیت المال میں نہ داخل کر دیں ؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ہرگز نہیں ! اس چھت کے نیچے جو کچھ ہے سب تقسیم کر دیا جاۓ ۔ چنانچہ مسجد میں چٹائیاں بچائیں گئیں اور ان پر سارا مال رکھ کر ڈھانپ دیا گیا ۔ جب لوگوں کے سامنے پردہ اٹھایا گیا تو سونے اور جواہرات کی چمک سے ایک عجیب سا سماں پیدا ہو گیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : جو لوگ یہ خزانہ یہاں تک لاۓ ہیں بڑے ہی امانت دار ہیں ۔ ( یعنی ایسی چمک دمک والے مال کو دیکھ کر بھی انہوں نے کسی قسم کی خیانت نہ کی لوگوں نے عرض کیا : ” حضور ! آپ اللہ کے امین ہیں اور لوگ آپ کے امین ۔ جب تک آپ رضی اللہ تعالی عنہ خدا کے امین رہیں گے تب تک لوگ آپ کے امین رہیں گے اور جب آپ میں کوئی تبدیلی واقع ہوگی تو لوگ بھی خائن ہوجائیں گے ۔ بہر حال آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سارا مال تقسیم کر دیا اورا پنی ذات کے لیے کچھ نہ رکھا ۔


کیا میں دنیاوی نعمتیں کھاؤں ۔۔۔ ؟

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی دنیاوی عیش و عشرت سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حضرت سیدنا عتبہ بن فرقد رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ کے کھانے کے متعلق گفتگو کی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دنیا کی بے رغبتی سے بھر پور جواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا : ويحك أكل طيباتن فی حياتي الدنيا واستمتع بها یعنی اے عتبہ ! کیا میں اپنی دنیاوی زندگی ہی میں ساری نعمتیں کھالوں اور ان سے فائدہ اٹھا لوں۔؟


دنیاداروں کے پاس کثرت سے جانے کی ممانعت :


حضرت سیدنا عبد الله بن عبید رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : ” لا تكثروا الدخول على أهل الدنيا فإنّها مسخطة للرزق یعنی دنیا داروں کے پاس کثرت سے نہ جایا کرو کیونکہ یہ رزق کی ناراضگی ( یعنی تنگدستی ) کا سبب ہے ۔”

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے