فاروق اعظم اور چند معاشرتی امور
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! افراد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے ، اگر ہر فرد اپنی اصلاح کی کوشش میں لگ جاۓ تو پورا معاشرہ درست ہوسکتا ہے ، فرد واحد کی اصلاح میں ایک حاکم کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، حاکم کی چھوٹی سی غلطی کسی بھی فرد کے ذہن کو منتشر کرنے کا باعث بن سکتی ہے ، جس سے پورے معاشرے کے بگاڑ کا شدید اندیشہ ہے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ معاشرتی امور پر خصوصی توجہ دیتے تھے ، ہر ہر فرد پر خصوصی توجہ دینا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عادت مبارکہ میں شامل تھا ، لوگوں کے ساتھ انفرادی طور پر آپ کا رویہ کچھ ایسا تھا کہ ہرفرد یہی سمجھتا کہ شاید فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مجھ پر سب سے زیادہ نظر رکھتے ہیں ، میرے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ، یقینا ایک کامیاب حکمران کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اجتماعیت کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر رعایا کے احوال سے باخبر رہے ، ان کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ تمام مسائل کو حل کر نے کی کوشش کرتا رہے ۔اگر چہ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی پوری خلافت ہی ان تمام امور کی عکاسی کرتی ہے لیکن یہاں چند گوشے پیش خدمت ہیں ۔
حاکم رعایا کے مال کا امین ہے :
حضرت سید ربیع بن زیادحارثی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں ایک وفد آیا اور آپ کے رہن سہن اور سخت کھانے کی شکایت کی ۔سید ناربیع رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے عرض کیا : لوگوں سے زیادہ آپ اس بات کے حق دار ہیں کہ نرم کھانا ، عمدہ سواری اور آرام دہ لباس اختیار فرمائیں ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجور کی ایک شاخ لے کر ان کے سر پر ماری اور فرمایا : مجھے نہیں لگتا کہ تم نے یہ بات کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کی ہے بلکہ تم تو میرا قرب چاہتے ہو اور میرے نزدیک اس میں تمہاری بربادی ہے ، کیا تم جانتے ہو کہ میری اور ان تمام لوگوں کی مثال کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : حضور ! آپ ہی بیان فرمادیجئے کہ وہ مثال کیا ہے ؟ فرمایا : یہ ایسے ہے جیسے چند لوگ سفر کر رہے ہوں ، پھر تمام لوگ ایک شخص کو اپنے سارے اخراجات دے دیں اور اس سے کہیں کہ تم ہم پر خرچ کرو تو کیا وہ شخص اس میں سے اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے میری اور ان تمام لوگوں کی مثال بھی یہی ہے ۔
فاروق اعظم کا جذبہ خیر خواہی :
حضرت سید نا قاسم بن محمد رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ عید گاہ کے بازار میں حضرت سید نا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب سے گزرے جو دو بڑے ٹوکروں میں کشمش پیچ رہے تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کشمش کی قیمت معلوم کی ۔انہوں نے ایک درہم کے بدلے دو مد بتائی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فر مایا : مجھے طائف سے آنے والے ایک قافلے کی اطلاع ملی ہے جو کشمش لے کر آرہے ہیں ، وہ بھی آپ کی قیمت کا اعتبار کریں گے ، یا تو آپ اپنی قیمت بڑھا دو یا پھر اپنی کشمش اپنے گھر لے جاؤ اور جیسے چاہے بیچو ۔ پھر جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ گھر تشریف لائے تو اپنے نفس کا محاسبہ فرمایا ۔ چنانچہ حضرت سیدنا حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئے اور ان سے فرمایا : میں نے آپ سے جو کہا تھا وہ نہ تو کوئی پختہ بات تھی اور نہ ہی میرا کوئی فیصلہ تھا ، بس وہ ایک مشور ہ تھا جس سے میں نے دیگر لوگوں کے لیے بھلائی کا ارادہ کیا تھا ، تمہاری مرضی جہاں چا ہو جیسے چاہو بیچو ۔
مردوں ، عورتوں کے اختلاط کی ممانعت :
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو نا پسند فرماتے تھے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نہایت ہی اعلی فہم وفراست کے مالک تھے اور جانتے تھے کہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے کئی فتنے پیدا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بار آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک حوض پر تشریف لائے دیکھا کہ وہاں پر مرداور عورتیں سب وضو کر رہے ہیں ، آپ نے سب کو کوڑے لگائے اور پھر حوض کے مالک کو حکم دیا کہ مردوں کے لیے علیحدہ اور عورتوں کے لیے علیحد ہ حوض بنایا جاۓ ۔
میٹھے میٹھے اسلامی مسائیو ! واقعی مردوں عورتوں کا اختلاط جہاں کہیں ہو وہاں فتنوں کے پیدا ہونے کا شدید اندیشہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دونوں کے لیے علیحدہ علیحد ہ حوض بنانے کا حکم دیا ، آپ کے اس فرمان میں نصیحتوں کے بے شمار مدنی پھول ہیں ، خصوصاً آج کے پرفتن دور میں جہاں ہر طرف عزتوں کے چور دندناتے پھرتے ہیں ، اسلام میں عورتوں کے حقوق کی مکمل پاسداری کی گئی ہے ، ہر ہر معاملے میں عورتوں کے حقوق کو بھی اسی طرح بیان کیا گیا ہے جس طرح مردوں کے حقوق کو بیان کیا جا تا ہے ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے اس مبارک عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے جدا گانہ حیثیت کی ترکیب بنائی جائے ، اس میں عافیت ہے ۔