فاروق اعظم اورخوف خداعزوجل


امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نہایت ہی خوف خدا رکھنے والے تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ آپ کی حیات کا ہر ہر گوشہ خوف خدا سے بھر پور تھا ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی نصیحت آموز گفتگو خوف خدا کے بے شمار مدنی پھولوں پرمشتمل ہوتی ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا کوئی ایسا فعل نہ تھا جس سے خوف خدا نہ جھلکتا ہو ۔خوف خدا آپ کی ذات مبارکہ پر ایسا غالب تھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر اوقات اس بات کی تمنا کرتے کہ : کاش ! میں اس دنیا میں پیدا نہ ہوا ہوتا اوراے کاش ! میں بشر ہی نہ ہوتا ۔ اس طرح کے کئی اقوال کتب سیرت میں ملتے ہیں ۔ چنانچہ ،


اے کاش ! میں بشر نہ ہوتا :


حضرت سیدنا ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالى عنہ ارشادفرمایا کرتے تھے : ’’ اے کاش ! میں اپنے گھر والوں کا دنبہ ہوتا جسے وہ خوب کھلاتے پلاتے حتی کہ میں خوب موٹا تازہ ہوجا تا ۔ پھر ان کے پیارے دوست مہمان بنتے تو وہ مجھے ان کے لیے ذبح کرتے ، میرے کچھ گوشت کو بھونتے کچھ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے کھا جاتے ، پھر مجھے فضلہ بنا کر باہر نکال دیتے ، اے کاش ! میں بشر نہ ہوتا ۔ ‘‘


کاش ! عمر یہ مٹی کا ڈھیلا ہوتا :


حضرت سیدنا عبد الله بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ آپ نے زمین سے ایک مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور فرمایا : اے کاش ! عمر یہ مٹی کا ڈھیلا ہوتا اے کاش ! میں پیدا نہ ہوا ہوتا اے کاش ! میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا اے کاش ! میں کچھ بھی نہ ہوتا ، کوئی بھولی بسری شے ہوتا”


فاروق اعظم اور خوف وامید کی اعلی مثال :


امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اگر آسمان سے ندا کی جاۓ کہ ‘ روۓ زمین کے تمام آدمی بخش دیئے گئے ہیں سوائے ایک شخص کے ” تو میں خوف خدا کے سبب یہی سمجھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں ۔ اور اگر یہ ندا کی جاۓ کہ ’’ روۓ زمین کے تمام آدمی دوزخی ہیں سوائے ایک شخص کے ‘ ‘ تو میں اللہ کی رحمت سے امید کے سبب یہی سمجھوں گا کہ وہ ایک شخص بھی میں ہی ہوں ۔ ‘‘


فاروق اعظم خوف خدا کی باتیں سنتے :


امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سیدنا كعب الأخبار رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشادفرمایا : ” اے کعب رضی اللہ تعالی عنہ ! ہمیں ڈر والی کچھ باتیں سنائیں ‘‘ تو حضرت سیدنا کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : ” اے امیر المؤمنین ! اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ قیامت کے دن ستر انبیاء کرام علیہم السّلام کے عمل لے کر بھی آئیں تو قیامت کے احوال دیکھ کر انہیں حقیر جاننے لگیں گے ۔ اس پر امیر المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ دیر کے لئے سر جھکا لیا پھر جب افاقہ ہوا تو ارشادفرمایا : ’’ اے کعب رضی اللہ تعالی عنہ ! مزید سنائیں ۔ ‘‘ تو انہوں نے عرض کی : ’’ اے امیرالمؤمنین ! اگر جہنم میں سے بیل کے ناک جتنا حصہ مشرق میں کھول دیا جاۓ تو مغرب میں موجود شخص کا دماغ اس کی گرمی کی وجہ سے ابل کر بہہ جاۓ ۔ اس پر امیر المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ دیر کے لئے سر جھکا لیا پھر جب افاقہ ہوا تو ارشادفرمایا : اے کعب رضی اللہ تعالی عنہ ! اور سنائیں ‘‘ تو انہوں نے پھر عرض کی : ” اے امیر المؤمنین ! قیامت کے دن جہنم اس طرح بھڑ کے گا کہ کوئی مقرب فرشتہ یا نبی مرسل ایسا نہ ہو گا جو گھٹنوں کے بل گر کر یہ نہ کہے : رب ! نفسی نفسی ( اے رب ! آج میں تجھ سے اپنی بخشش کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا ) ۔ ‘‘ حضرت سیدنا كعب الأخبار رضی اللہ تعالی عنہ نے مزید بتایا : ‘ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ اولین و آخرین کو ایک ٹیلے پر جمع فرماۓ گا ، پھر فرشتے نازل ہو کر صفیں بنائیں گے ۔ اس کے بعد اللہ ارشاد فرمائے گا : ” اے جبرائیل ( علیہ السلام ) ! جہنم کو لے آؤ ۔ ‘ ‘ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام جہنم کو اس طرح لے کر آئیں گے کہ اس کی ستر ہزار لگاموں کو کھینچا جار ہا ہوگا ، پھر جب جہنم مخلوق سے سو برس کی راہ پر پہنچے گی تو اس میں اتنی شدید بھڑک پیدا ہو گی کہ جس سے مخلوق کے دل دہل جائیں گے ، پھر جب دوبارہ بھڑک پیدا ہو گی تو ہر مقرب فرشتہ اور نبی مرسل گھٹنوں کے بل گر جائے گا ، پھر جب تیسری مرتبہ بھڑکے گی تو لوگوں کے دل گلے تک پہنچ جائیں گے اور قلبیں گھبرا جائیں گی ، یہاں تک کہ حضرت سیدنا ابراہیم على نبينا عليهم الصلوۃ والسلام عرض کر یں گے : ” میں تیرے خلیل ہونے کے صدقے سے صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں ۔ ‘‘ حضرت سید نا موسى على نبينا عليه الصلوة والسلام عرض گزار ہوں گے : ’ یا الہی ! میں اپنی مناجات کے صدقے صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں ۔ حضرت سیدنا عیسی علی نبينا علیہ الصلوة و السلام عرض کریں گئے : یا الہی ! تو نے مجھے جوعزت دی ہے اس کے صدقے میں صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں اس مریم رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے سوال نہیں کرتا جس نے مجھے جنا ہے ۔ ‘‘ الزواجر عن اقراف الکبائر مقدمہ فی تعریف الکبیرہ ج ۱، ص ۴۹


کاش ہمیں بھی خوب خدا نصیب ہو جائے :


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی علہ رسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم کے پیارے صحابی ہیں جن کے جنتی ہونے میں کسی شک وکٹھے کی قطعاً گنجائش نہیں اس کے باوجود خوف خدا کا یہ حال ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے قبر وآخرت کے مراحل و واقعات سن کر خوب گریہ وزاری فرماتے اور بروز قیامت فرد واحد کے جہنمی ہونے کی صدا پر اپنے آپ کو تصور کرتے کہ وہ جہنمی میں ہی ہوں ۔مگر آہ ! آج ہم صبح وشام گناہوں میں گزارنے کے باوجود اپنے آپ کو زمانے کا نیک اور پارساشخص تصور کرتے ہیں ، اولا ہم سے کوئی نیکی ہوتی نہیں اور اگر بالفرض کوئی نیکی کر بھی لیں تو ریا کاری کی تباہ کاری اس نیکی کو ہلکی سی چنگاری لگا کر تہس نہس کر ڈالتی ہے ۔ کاش ! ہمیں بھی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم ربي الله تعالى عنه جیسا حقیقی خوف خدا نصیب ہو جاۓ جو ریا کاری کی تباہ کاری سے پاک وصاف ہو ۔ آمين بجاه النبي الأمين صلى الله تعالى عليه واله وسلم


موت کا جھٹکا تلوار سے سخت ہے :


فرمان امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالى عنه : ” اگر روز قیامت یہ اعلان ہو کہ تمام روئے زمین کے آ دمی بخش دیئے گئے ہیں سوائے ایک شخص کے تو خوف خدا کے سبب یہی سمجھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں ۔ ” اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمة الرحمن اس فرمان کو بیان کرنے کے بعد ارشادفرماتے ہیں : خیر یہ تو حصہ عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کا تھا لیکن کم سے کم ہر مسلمان کو اتنا تو ہونا ہی چاہیے کہ صحت وتندرستی کے وقت ” خوف ” ( یعنی خوف خدا ) غالب ہو اور مرتے وقت”رجا ” ۔ ( یعنی اللہ کی رحمت سے مغفرت کی امید ) حدیث میں ہے : ” ہر جھٹکا موت کا ہزار ضرب تلوار سے سخت تر ہے ۔ ” ( مردہ آدمی کو) ملائکہ دبوچے بیٹھے رہتے ہیں ورنہ آدمی تڑپ کر نہ معلوم کہاں جائے ، اس وقت اگر معاذ اللہ کچھ اس طرف سے ناگواری آئی تو سلب ایمان ہو گیا۔اس لیے اس وقت بتایا جائے کہ کس کے پاس جار ہا ہے ۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دل میں بھی رب کا حقیقی خوف پیدا ہو جاۓ تو اس کا ایک ذریعہ دعوت اسلامی کا مدنی ماحول بھی ہے ، آپ دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائے اور اپنے قلب میں خوف خدا کو اجاگر کیجئے ۔ ان شاء اللہ دونوں جہاں میں بیڑا پار ہوگا ۔ لاکھوں لوگ اس مدنی تحریک سے وابستہ ہوکر اپنے دلوں میں خوف خدا کی شمع اجا گر کر کے اپنے قلوب کو رب اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی محبت سے منور کر چکے ہیں ۔


منقول: فیضان فاروق اعظم رضی اللہ عنہ 


.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے