فاروق اعظم رضی الله تعالى عنہ کا عقیدہ محبت
نبی کریم ، محبوب رب عظیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہمارے آقاو مولی ہیں ، اس لئے اپنے آقا کی محبت اور عقیدت ہمیشہ ہمارے دل میں قائم رہنی چاہیے ، اور جس کے دل میں آقا کی محبت ہو وہ اس کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرتا ، ہر ایک کے سامنے بڑے فخریہ انداز میں اپنے آقا کی تعریف کر تا اور اس کا غلام ہونے میں خوشی محسوس کر تا ہے ۔ حضرت سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایک سچے عاشق رسول یقینی جنتی اور صحابہ کرام میں اعلی مرتبے پر فائز صحابی رسول ہیں ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ خود کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا خادم اور غلام ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے ،
چنانچہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضي الله تعالی عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوۓ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا : ” كنت مع رسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وسلم فكنت عبدہ وخادمہ یعنی میں حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی صحبت بابرکت سے فیض یافتہ رہا ہوں ، میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا غلام اور خدمت گار رہا ہوں ۔ “
( مستدرك حاكم ، کتاب العلم ، خطبة عمر بعد ماولی ۔۔۔ الخ ، ج اس ۴۴۵ : ۳۳۲ )
سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا غلامی رسول کا دعوی صرف زبان کی حد تک نہیں تھا بلکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ، نبی کریم رؤف ورحیم صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کے واقعی کے غلام تھے ، ساری زندگی آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوۓ گزاری ۔ لیکن افسوس صد افسوس ! ہم غلامی رسول کا دم بھرتے ہیں مگر ہمارا کردار اس کے الٹ دکھائی دیتا ہے ۔ یادرکھئے ! محبت رسول صرف اس بات کا نام نہیں کہ اجتماع ذکر و نعت اور جلوس میلاد میں بلند آواز سے مجھوم جھوم کر نعت شریف پڑھی جائے ، ہاتھ اٹھا کر زور زور سے نعرے لگائے جائیں اور پھر ساری رات جاگنے کے بعد نماز فجر پڑھے بغیر ہی سو جائیں ، عام دنوں میں بھی پانچوں نماز میں حتی کہ جمعہ تک نہ پڑھیں ، پیارے آقا ، دوعالم کے داتا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیاری سنتوں کو چھوڑ کر بنت نئے فیشن اپنائیں ، اچھے اخلاق سے پیش آنے کے بجائے بد اخلاقی اور دیگر برائیاں بھی نہ نکال پائیں تو ایسی محبت کامل کیسے ہو گی ؟ جبکہ حقیقی محبت تو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ مخلوق کی ادائیگی میں سرکار دوجہاں ، شفیع عاصیاں وکیل مجرمان ﷺ کو اونچا مانا جائے اور اس طرح کہ ہم آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو تسلیم کریں ، آپ صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کی تعظیم وادب بجالائیں اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات ، اپنی اولا د ، ماں باپ ، عزیز واقارب اور اپنے مال و اسباب پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی رضا و خوشنودی کو مقدم رکھیں ۔ ( ماخوذاز اشعۃ اللمعات ، ج ۱ ، کتاب الایمان فصل اول ، ص ۵۰ )
اور جس کام سے آپ صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم نے منع فرمادیا ، اس سے بچنے کی کوشش بھی کرتی رہیں ، اگر بتقاضائے بشریت اس کا ار تکاب کر بیٹھیں تو اللہ پاک کی رحمت سے بخشے جانے اور روز محشر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی شفاعت پانے کی امید رکھتے ہوۓ سچی توبہ کریں اور آئندہ اس گناہ کی طرف جانے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں ۔
اسلامی بھائیو ! کامل محبت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محبت کرنے والے کو اپنے محبوب سے تعلق رکھنے والی ہر ہر چیز سے محبت ہو ۔ امیر المومنین حضرت سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت رسول کے کیا کہنے ! سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نہ صرف اللہ پاک کے محبوب ، دانائے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکات سے محبت فرماتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی اولاد ، ازواج ، اصحاب بلکہ ہر وہ چیز جسے آپ صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کے ساتھ نسبت ہو جاتی اس سے بھی والہانہ عقیدت اور محبت فرماتے اور یہی حقیقی محبت کے تقاضوں میں سے ہے ۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ کے بے شمار واقعات ایسے ہیں ، جن سے اس حقیقی محبت و عشق کا والہانہ اظہار ہو تا ہے ، آیئے ! ان میں سے ایک واقعہ سنئے ۔ اللہ پاک پارہ 30 سورة البلد کی پہلی اور دوسری آیت میں از شاد فرماتا ہے :لا أقسم بهذا البلدة وأنت حل بھذا البلد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع ( اتفاق ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ پاک جس شہر کی قسم یاد فرمارہا ہے ، وہ مکہ مکرمہ ہے ۔ اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ آمیر المؤمنین حضرت سید ناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی جناب میں یوں عرض گزار ہوۓ : یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! آپ کی فضیلت اللہ پاک کے ہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیات مبارکہ کی ہی اللہ کریم نے قسم ذکر فرمائی ہے نہ کہ دوسرے انبیاء کی اور آپ کا مقام ومرتبہ اس کے ہاں اتنابلند ہے کہ اس نے لا أقسم بهذا البلد کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم ذکر فرمائی ہے ۔
شرح زرقانی علی المواهب الفصل الخامس ۔۔۔ الخ ، ج ۸ ، ص ۴۹۳ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بیان کر دہ روایت سے معلوم ہوا ! امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ مکہ مکرمہ سے اس لیے بھی محبت فرماتے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے محبوب آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس شہر میں تشریف فرما ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالى عنه مدينة منورة سے بھی ایسی ہی محبت فرماتے تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مدینه منوره سے عشق و محبت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں وفات کی دعا فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ بارگاہ الہی میں اس طرح عرض کرتے : اللهم ارزقني شهادة في سبيلك واجعل موتی في بلد رسولك صلى الله تعالى عليه واله وسلم یعنی اے اللہ پاک ! مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے شہر میں موت عطا فرما ۔ ( بخاری ، کتاب فضائل المدينة ، باب كراهية النبی۔۔الخ ، ج ۱ ، ص ۲۲۲ ، حدیث : ۱۸۹۰ )
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ دونوں دعائیں مقبول ہوئیں ۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ امین بجاہ النبي الأمين صلى الله تعالى عليه واله وسلم