فاروق اعظم اور سر کار کی دل جوئی 


     حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ از شاد فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم غمگین حالت میں اپنے مہمان خانے میں تشریف فرما تھے ۔ میں آپ صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کے غلام کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے میرے داخل ہونے کی اجازت مانگو ۔ “ اس نے واپس آکر کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں آپ کا ذکر تو کیا ہے مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کوئی جواب ارشاد نہیں فرمایا ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے میری حاضری کی اجازت مانگو۔وہ گیا اور واپس آکر پھر کہا : ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے آ سے آپ کا ذکر کیا مگر آپ صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ‘ ‘ میں کچھ کہے بغیر واپس پلٹا تو غلام نے آواز دی کہ ” آپ اندر آجایئے ! اجازت مل گئی ہے ۔ چنانچہ میں اندر گیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ایک چٹائی پر ٹیک لگائے تشریف فرما تھے ، جس کے نشانات آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پہلو پر واضح نظر آرہے تھے ، پھر میں کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی دل جوئی کیلئے عرض گزار ہوا : ” اشتانش یا رسول الله یعنی یارسول الله ﷺ! میں آپ کے ساتھ باتیں کر کے آپ کو مانوس کرنا چاہتا ہوں ۔ ہم قریش جب مکہ میں تھے تو اپنی عورتوں پر غالب تھے اور یہاں مدینہ منورہ میں آکر ہمارا ایسی قوم سے واسطہ پڑا ، جن پر عورتیں غالب ہیں ۔ یہ سن کر حضور نبی پاک صاحب لولاک صلى الله تعالى عليه واله وسلم مسکراۓ۔میں نے کہا : یارسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم ! میں حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا تھا اور ان سے کہا : آپ اپنے ساتھ والی ( یعنی حضرت سید تناعائشہ صدیقہ رضی الله تعال عنہا ) پر کبھی رشک نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ حسین اور شہنشاہ مدینہ ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ زوجہ ہیں ۔ “ یہ سن کر سر کار نامدار ، مدینے کے تاجدارصلی اللہ تعالى عليه واله وسلم دوبارہ مسکرا دیئے ۔
( بخاری ، کتاب ا لنکاح ، باب موعد الرجل ابنته لحال زوجها ، ج ۳ ، ص : ۴۲۰ ، حدیث : ۵۱۹۱ است )

      میٹھی میٹھی اسلامی بھائیو ! اس واقعے سے اندازہ لگایئے کہ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالی نہ کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ سر کار مدینہ ﷺ کسی تکالیف و غم میں مبتلا ہوں ، اس لئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پیارے آقا ، حبیب کبریا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو مانوس کرنا چاہا اور بالآخر آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اس ارادے میں کامیاب بھی ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم ان کی باتوں پر مسکر ادیئے ۔

ذراغور کیجئے
! ایک طرف صحابہ کرام علیھم الرضوان کا یہ عالم ہے کہ وہ آپ صلی اللا علیہ والہ وسلم کو غمزدہ دیکھ کر اداس ہو جاتے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلہ کی دل جوئی کیلئے طرح طرح کی کوشش کرتے اورایک ہم ہیں کہ اپنے شب وروز گناہوں میں گزار رہی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات بابرکت کو تکلیف پہنچا رہی ہیں مگر ہمیں اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہو تا ۔ یہ درکھئے ! اس بات میں شک نہیں کہ آج بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اپنے امتیوں کے تمام احوال کو ملاحظہ فرماتے ہیں ۔


چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں : میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے تم مجھ سے باتیں کرتے ہو اور میں تم سے ، اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے ، جب میں کوئی بھلائی دیکھوں گا تو حمد الہی بجالاؤں گا اور جب برائی دیکھوں گا تمہاری بخشش کی دعا کروں گا۔


الزخار المعروف بمسند البزار ، حدیث : ۱۹۲۵ مکتبہ العلوم والحکم ۵ / ۳۰۹۱۳۰۸ )

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئ


حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة الله تعالی علیہ فرماتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اپنے ہر امتی اور اس کے ہر عمل سے خبر دار ہیں ۔ حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی نگاہیں اند ھیرے ، اجالے ، کھلی ، چھپی ، موجو دو مخذوم ہر چیز کو دیکھ لیتی ہے ۔ جس کی آنکھ میں مازاغ کا سرمہ ہو ، اس کی نگاہ ہمارے خواب و خیال سے زیادہ تیز ہے ، ہم خواب و خیال میں ہر چیز کو دیکھ لیتی ہیں ، حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نگاہ سے ہر چیز کا مشاہدہ کر لیتے ہیں ۔ صوفیاء ( رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین ) فرماتے ہیں کہ یہاں اعمال میں دل کے اعمال بھی داخل ہیں ، لہذا حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہمارے دلوں کی ہر کیفیت سے خبر دار ہیں ۔


( مراۃ ج ۱ ، ص : ۴۳۹ )

    میٹھی میٹھی اسلامی بھائیو ! معلوم ہوا ! آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اپنے امتیوں کے تمام احوال سے باخبر ہیں تو ہمارے نیک اعمال دیکھ کہ خوش اور برے اعمال سے غمگین بھی ہوتے ہوں گے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی رضا حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کریں ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکت پر کثرت سے درودوسلام کے گجرے نچھاور کریں ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی سکھائیں تا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم خوش ہو کر روز محشر شفاعت فرماکر جنت میں ہمیں بھی اپنے ساتھ لیتے جائیں ۔


یا الہی جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے


صاحب کوثر شہ جود و عطا کا ساتھ ہو


یا الہی گرمی محشر سے جب بھڑ کیں بدن


دامن محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو


یا الہی نامہ اعمال جب کھلنے لگیں


عیب پوش خلق ستار خطا کا ساتھ ہو

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے