فاروق اعظم اور حفاظت قرآن

ایک اہم وضاحتی مدنی پھول : 

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! واضح رہے کہ قرآن پاک کا حقیقی محافظ خود رب العالمین ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : ”إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحفظون ( ۱۳ ، الحجر : ۹ ) ترجمہ کنزالایمان : ” بیشک ہم نے ا تارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔ “ خلیفہ اعلی حضرت ، مفسر قرآن ، صدرالافاضل مولا نا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : تمام جن وانس اور ساری خلق کے مقدور میں نہیں ہے کہ اس میں ایک حرف کی کمی بیشی کرے یا تغییر و تبد یل کر سکے اور چونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے دوسری کسی کتاب کو یہ بات میسر نہیں ۔ یہ حفاظت کئی طرح پر ہے ایک یہ کہ قرآن کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے ، ایک یہ کہ اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو ، ایک یہ کہ ساری خلق کو اس کے نیست و نابود اور معدوم  کرنے سے عاجز کر دیا کہ کفار باوجو دکمال عداوت کے اس کتاب مقدس کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔ 

   اللہ نے قرآن پاک کا حقیقی محافظ ہونے کے باوجودامیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالى عنه کو دنیاوی اعتبار سے حفاظت قرآن کی سعادت عطافرمائی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عہد رسالت ، عہد صدیقی اور اپنے عہد یعنی عہد فاروقی میں قرآن پاک کی حفاظت کے سلسلے میں اہم کردار ادا فرمایا تفصیل درج ذیل ہے : 

عہد رسالت کے محافظ قرآن : 

   عہد رسالت میں بتدریج ( وقفے وقفے سے )قرآن پاک کا نزول ہوتا رہا اور جب بھی کوئی آیت مبارکہ نازل ہوتی خود سلطان المتوكلين ، رحمة للعالمين صلى الله تعالى عليه واله وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ترتیب سے لکھوا دیتے ، سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی کا تب وحی تھے اور قرآن پاک لکھتے رہتے تھے ، یوں عہد رسالت میں بھی قرآن پاک کی حفاظت میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت بڑا حصہ شامل حال رہا ، نیز آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شماران مخصوص صحابہ کرام علیہم الرضوان میں ہوتا ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے خودقر آن پاک کی تفسیر پڑھی ۔  یقینا یہ امربھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قرآن پاک کی حفاظت کے ضمن میں شامل اور قابل تحسین ہے ۔ 

عہد صدیقی کے محافظ قرآن : 

   عہد رسالت کے بعد جیسے ہی عہد صدیقی شروع ہوا ، فتنہ زکوۃ ، فتنہ ارتداد اور اس جیسے دیگر کئی فتنے اٹھ کھڑے ہوۓ ، خلیفۂ رسول اللہ امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم ورسول الله صل اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی  خاص عنایت سے ان کا قلع قمع کر دیا ۔ ان تمام فتنوں کو ختم کرنے کے لیے عہد صدیقی میں کئی جنگیں لڑی گئیں جن میں سے ایک بہت ہی مشہور جنگ ، جنگ یمامہ بھی ہے جو نبوت کا دعوی کرنے والے ایک جھوٹے شخص’’مسیلمہ کذاب “ کے خلاف لڑی گئی ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایک کثیر تعداد میں قرآن پاک کے حفاظ نے شہادت پائی ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی با کمال فراست سے یہ بات جان لی کہ اگر یونہی ایک دو جنگوں میں حفاظ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شہادت ہوئی تو امت مسلمہ فیضان قرآن سے محروم ہوسکتی ہے ۔ لہذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ مشورہ دیا کہ قرآن پاک کے مختلف صحائف و اوراق کو ایک جگہ جمع کر دیا جاۓ ، اولاسید نا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو اشکال رہا مگر بعد ازاں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے کو قبول فرمالیا اور کاتب وحی ، حافظ قرآن صحابی حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے ان تمام قرآنی صحائف کو ایک جگہ جمع فرمادیا ۔ یوں امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے حفاظت قرآن کا ایک اہم کام پایۂ تکمیل کو پہنچا ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے