فاروق اعظم اور حفاظت حدیث 

   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جس طرح حفاظت قرآن کے سلسلے میں بہترین خدمات انجام دیں اسی طرح حفاظت حدیث کے معاملے میں بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ جانتے تھے کہ آج تو ہمارے پاس صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک تعداد موجود ہے جنہوں نے بذات خود رسول الله صلى اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی زبان حق ترجمان سے احادیث سنی ہیں ، یقینا کچھ عرصے بعد یہ حضرات دنیا سے تشریف لے جائیں گے تو امت مسلمہ قرآن وسنت کے معاملے میں کسی انتشار کا شکار نہ ہو ، لہذا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسے اقدامات فرماۓ کہ قرآن وحدیث کے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں مزید احتیاط برتی جانے لگی ۔ آپ نے جب احادیث جمع کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس معاملے میں بھی آپ کو کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی ۔ چنانچہ علامہ ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ : ’ ’ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ احادیث مبارکہ کو جمع کرنے کا ارادہ بھی فرمایا اور آپ پر یہ معاملہ ظاہر بھی ہو گیا ۔ ‘ ‘ واقعی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا امت مسلمہ پر یہ احسان عظیم ہے کہ احکام شرعیہ کے بنیادی ماخذ قرآن وسنت کی حفاظت کے معاملے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ فرمایا ، رسول الله صلى الله تعالى عليہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے محبت کر نے والے آج بھی سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے اس عظیم کارنامے کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی ، اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بغض ہے وہ آج بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مبارک ہستیوں میں خامیاں تلاش کرتے نظر آتے ہیں ، اللہ تعالی ہمیں ایسے تمام لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ آمین بجاہ النبي الأمين صلى الله تعالى عليہ وآلہ وسلم 


حفاظت حدیث کے امور کی تفصیل :

   کتب احادیث اور سیر و تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حفاظت حدیث سے متعلق کئی ایسے امور اختیار فرماۓ جن سے حدیث کی حفاظت ممکن ہو سکے ، نیز آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ان امور پر بعض حضرات کو غلط فہمی بھی ہوگئی اور انہوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف بعض باتیں بھی منسوب کر دیں ، لہذا ان تمام امور کو چار اعتبار سے بیان کیا گیا ہے : 

   (١)سید نافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا بذات خود احادیث بیان کرنے میں احتیاط کرنا ۔

   (٢)سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا بغیر گواہوں کے حدیث بیان کرنے کی ممانعت ۔    

   (٣)بغیر گواہوں کے کثرت سے احادیث بیان کر نے والوں کی سرزنش کرنا ۔ 

   (٤)حفاظت حدیث سے متعلق فاروق اعظم کے معاملات کی حکمت عملی ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے