شورائ نظام کسے کیتے ہیں ؟
” شوری“ مشورے کو کہتے ہیں ، جس نظام میں مختلف امور پر مشاورت کے بعد طے شدہ امور پر عمل کیا جاۓ اسے ”شورائی نظام “کہا جا تا ہے ۔ شورائی نظام کو اسلام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں اسے بیان فرمایا ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : « و امرهم شوری بينهم» (پ:25 الشوری: 38) ترجمہ کنزالایمان : اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے ۔ قرآن پاک کی ایک مکمل سورت کا نام بھی ’ ’ شوری ‘ ‘ ہے ۔ خود دوعالم کے مالک و مختار کی مدنی سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوقر آن پاک میں صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مشاورت کا حکم دیا گیا ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : وشاورهم في الأمر ( پ:4 آل عمران : 159) ترجمہ کنز الایمان : اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ اس آیت کی تفسیر میں صدرالافاضل مولا نا مفتی محمدنعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں : اس میں ان کی دلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہو جاۓ گا اور آئندہ امت اس سے نفع اٹھاتی رہے گی ۔
مشاورت سے متعلق ایک نفیس توجیہ :
حضرت سید ناحسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی اور حضرت سید ناضحاک رحمہ اللہ تعالی علیہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے حضور نبی کریم ، رءوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس وجہ سے نہیں دیا کہ اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان کے مشورے کی حاجت ہے بلکہ اس لئے کہ انہیں مشورے کی فضیلت کا علم دے اور آپ کے بعد آپ کی امت مشورہ کرنے میں آپ کی اقتداء اور اتباع کرے ۔
مشورے کو امت کے لیے رحمت بنادیا :
سید نا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ : « وشاورهم في الأمر »نازل ہوئی تو حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : بے شک اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مشورے سے مستغنی ہیں لیکن اللہ عزوجل نے مشورے کومیری امت کے لئے رحمت بنادیا ہے ۔
عہد رسالت کاشورائی نظام :
اللہ عزوجل کے محبوب ، دانائے غیوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ مختلف امور میں مختلف صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مشاورت فر مایا کرتے تھے ، اکثر اوقات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شیخین کریمین یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی الله تعالى عنه وسید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے مشاورت فرماتے اور اس کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سامنے اس معاملے کو پیش فرماتے ۔ایک بار آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ( اے ابوبکر وعمر ) اگرتم دونوں کسی مشورے پر متفق ہوجاؤ تو میں اس کی مخالفت نہیں کروں گا ۔ گو یا شورائی نظام حکومت کوئی نیا نظام نہیں تھا بلکہ یہ نظام حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارکہ سے ہی چلا آ رہا تھا ۔
عہد رسالت میں مشاورت کی پانچ مثالیں :
غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کفار کے دو گروہ یعنی ابوسفیان ( جواس وقت ایمان نہ لائے تھے ۔) والے گروہ اور کفار قریش کے گروہ سے متعلق مشورہ فرمایا ۔
جنگ بدر میں کفار کے ستر افراد قید ہو کر آۓ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کرام عليهم الرضوان سے ان کے متعلق مشورہ فرمایا ۔
غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مشورہ فرمایا اور ان کے مشورے کے مطابق خندق کھودنے کا حکم ارشادفرمایا ۔
غزوہ فتح مکہ کے لیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے شیخین کریمین سے مشاورت فرمائی ۔
محبوب رب داور شفیع روز محشر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر اوقات رات گئے تک مسلمانوں کے مختلف امور پرسید ناصدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے مشاورت فرماتے رہتے تھے ۔
عہد صدیقی کاشورائی نظام :
امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی عہد رسالت کے اس شورائی نظام کو برقرار رکھا ، اکابر ین صحابہ کرام علیہم الرضوان خصوصاً امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے مشاورت کرنا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عادات مبارکہ میں شامل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ایسا امر در پیش ہوتا جس میں اہل فقہ واہل راۓ کے مشورے کی ضرورت ہوتی تو آپ خاص طور پر امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سید نا عثمان غنی رضی الله تعالى عنه ، حضرت سید ناعلی المرتضی شیر خدا کرم الله تعالى وجه الكريم ، حضرت سید نا عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سید نا معاذ بن جبل ، حضرت سید نا ابی بن کعب ، حضرت سید نا زید بن ثابت اور مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بلاتے اور مشورہ فرماتے ۔
مشاورت کو خود پر لازم کرلو :
حضرت سید ناعبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ نے حضرت سید نا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک مکتوب روانہ فرمایا جس کا مضمون کچھ یوں تھا : ‘ انّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم شاورنا في الحزب وعليک بہ یعنی بے شک رسول الله صلى الله تعالى علیہ وسلم ہم سے جنگی معاملات میں مشاورت فر ما یا کرتے تھے لہذاتم پر بھی اسے اختیار کر نالازم ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کثیر معاملات میں مشاورت فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا وقت قریب آ گیا تو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بطور خلیفہ نامزدگی سے متعلق بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مشاورت فرمائیں اور تمام لوگوں کے خدشات کو دور کر کے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو منصب خلافت پر متمکن فرمایا ۔