عہد فاروقی میں مختلف فتنون کاسدباب
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں ایک دوا یسے فرقے بھی تھے جنہیں قرآنی احکامات کے بارے میں شکوک وشبہات تھے ، نیز یہ لوگ دیگر فاسد عقائد بھی رکھتے تھے ، ان میں سے ایک فرقہ” حروریہ“ بھی تھا ، جبکہ دوسرا فرقہ ”خلق قرآن“ یعنی قرآن کو مخلوق کہنے جیسا فاسد عقیدہ رکھتا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان دونوں فتنوں کا بھی سد باب فرمایا ۔
فرقہ حروریہ کاسد باب :
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے فرقہ حروریہ کے لوگوں کوقتل کر نے کا حکم تھا ، اس فرقے کی ایک خاص نشانی یہ تھی کہ یہ لوگ محلوق یعنی گنجے ہوتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہ بھی ہوتا کہ اس کا تعلق اس گمراہ فرقے کے ساتھ ہے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے خلاف کاروائی فرماتے ۔ چنانچہ حضرت سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام حضرت سید نا نافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ” صبیغ“ نامی شخص جو عراق کا رہنے والا تھا مسلمانوں کے لشکر میں قرآن پاک سے متعلق مختلف قسم کے عجیب وغریب سوالات کیا کرتا تھا یہاں تک کہ وہ مصر کے گورنر حضرت سید نا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچ گیا ۔ جب انہیں پتا چلا تو انہوں نے ایک قاصد کے ہاتھ مکتوب کے ساتھ اسے امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیج دیا ۔ جیسے ہی سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے قاصد کا مکتوب پڑھا تو پوچھا : وہ شخص کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : حضور ! وہ تو باہر اپنی سواری پر موجود ہے ۔ فرمایا : دیکھو کہیں وہ چلا تو نہیں گیا اگر وہ چلا گیا تو تمہاری خیر نہیں ہے ۔ وہ قاصد اسے لے کر آیا تو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا : تسأل محدثہ یعنی کیا تم ہی ہو جو الٹے سیدھے سوالات کرتے ہو ؟ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجور کی شاخیں منگوائیں اور اسے مارنا شروع کیا یہاں تک کہ اس کی پیٹھ سے خون بہنے لگا ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے چھوڑ دیا ، جب وہ ٹھیک ہو گیا تو دوبارہ بلا یا اور پھر مارا ، جب تیسری بار مارنے کے لیے بلا یا تو اس نے عرض کی : إن كنت تريد قتلى فاقتلني قتلا جميلا وإن كنت تريد أن تداويني فقد والله برأت یعنی اگر مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو پھر قتل کر دیجئے یوں تڑپا تڑ پا کر تو نہ ماریے اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے اس فاسد عمل سے رک جاؤں تو میں اس سے باز آ چکا ہوں ۔
یہ سن کرسید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اس کے شہر بھیج دیا اور حضرت سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا کہ مسلمانوں کو کہہ دو اس کا بائیکاٹ کریں یعنی کوئی اس کے ساتھ نہ بیٹھے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل اس پر نہایت ہی گراں گزرا اور اس نے سچی توبہ کر لی ، سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کومکتوب لکھا کہ حضور اب اس کی حالت بہت اچھی ہوگئی ہے ۔ توسید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو اس کے ساتھ میل جول کی اجازت عطافرمادی ۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ جیسے ہی وہ شخص آیا توسید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا : تو ں کون ہے ؟ اس نے کہا : انا عبد اللہ صبیغ یعنی میں اللہ تعالی کا بندہ صبیغ ہوں ۔آپ نے اس سے چند سوالات کیے اور پھر اسے مارنا شروع کر دیا –
ایک روایت میں یوں ہے کہ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : وجدتك مخلوقالضربت الذي فنه عیناک یعنی اگر تو گنجا ہوتا تو میں تیرا سرتن سے جدا کر دیتا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے بائیکاٹ کے حکم کے بعد حضرت سید نا ابوعثمان رحمة الله تعالی علیہ فرماتے ہیں : فلو جاء ونحن مائة لتفرقناعنہ اس شخص کا حال یہ تھا کہ اگر ہم سو آ دمی بھی جمع ہوتے اور صبیغ آ جا تا تو ہم سب وہاں سے منتشر ہو جاتے ۔
ایک روایت میں ہے کہ جب سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے مارا اور اس کا عمامہ گر گیا توفر مایا : أحروري والذي نفس عمر بن الخطاب بيده لو وجدتک مخلوقا لانحيت القمل عن رأسك یعنی کیا تو حروری ہے ؟ اس رب عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر تو گنجا ہوتا تو میں تیرا دماغ درست کر دیتا ۔